سب سے پہلے صاحبِ فراش دوستوں کے لیے دعائے صحت۔ احمد سلیم کا نادرست جگر تبدیل کردیا گیا اور وہ اس کامیاب آپریشن کے بعد روبصحت ہیں۔ بھارت میں گوپی چند نارنگ اور نیر مسعود علیل ہیں جبکہ سید عباس اطہر کے صحت یاب ہونے کا شدت سے انتظار ہے۔ منو بھائی کو لہے کی ہڈی کے فریکچر کے بعد پہلے کی طرح چاق وچوبند ہیں، زاہد حسن بھی علیل رہنے کے بعد صحت یابی کی طرف مائل ہیں اور اسی طرح اعزاز احمد آذر کے بارے میں بھی اچھی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی صحت کے مسائل سے دوچار ادیبوں کے لیے دعائے صحت ! پچھلے دنوں متعدد ادبی جرائد شائع ہوئے ہیں جن کی خبر اہل ذوق کو دینا ضروری ہے۔ محمد عاصم بٹ کی ادارت میں شائع ہونے والا اکادمی ادبیات کا رسالہ ’’ادبیات‘‘ منظر عام پر آیا ہے ، اس کے علاوہ صدیقہ بیگم کی ادارت میں چھپنے والا ماہنامہ ادب لطیف، صفدر بلوچ کا ’’ماہِ نو‘‘ عنبرین حسیب عنبر کے رسالے ’’اسالیب‘‘ کے دوشمارے جو دونوں مجلد ہیں، مبین مرزا کا سال بھر میں ایک بار شکل دکھانے والا ’’مکالمہ‘‘ ،کراچی ہی سے ڈاکٹر انصار شیخ کا ’’زیست‘‘ منٹو نمبر مجلد ، ضیا حسین ضیا کا ’’رونگار‘‘ سید اذلان شاہ کا ’’نزول‘‘ احسن سلیم کا ’’اجرا‘‘ ڈیرہ اسماعیل خان سے شائع ہونے والا ’’عطا‘‘ شاہد علی خاں کا ’’الحمرا ‘‘ خالد احمد کا ’’بیاض ‘‘ کنول فیروز کا ’’شاداب‘‘ نصیر احمد ناصر کا ’’تسطیر‘‘ اظہر جاوید (مرحوم) کا ’’تخلیق‘‘ ’’خبرنامۂ شب خون‘‘ ’’خبرنامہ اکادمی ادبیات‘‘، جبکہ عرفان صادق نے اپنا رسالہ بند کرنے کی اطلاع دی ہے، ثمینہ راجہ مرحومہ کا ’’آثار‘‘ کی اشاعت بھی بوجوہ رکی ہوئی ہے۔ البتہ سلیم و ریاض کی ادارت میں شائع ہونے والا ’’سویرا‘‘ بھی ایک اطلاع کے مطابق شائع ہوگیا ہے جبکہ غلام حسین ساجد کا زیرتجویز رسالہ بھی ابھی تک منصہ شہودپر نہیں آیا۔ گلزار جاوید کا ’’چہارسو ‘‘بھی شائع ہوگیا ہے۔ حلقۂ اربابِ ذوق کی قدیم اور عمومی جلوہ گاہ ’’پاک ٹی ہائوس‘‘ پنجاب حکومت کی کاوشوں سے ایک بار پھر آباد ہوگیا ہے لیکن عام شکایت یہی ہے کہ اس میں وہ پرانی رونق موجود نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اکثر پرانے لوگ اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں تو وہ رونق کہاں سے آئے گی۔ پاک ٹی ہائوس کی بندش سے انتظار حسین، محمد سلیم الرحمن اور مسعود اشعر وغیرہ نے ریڈنگز اور کئی دوسرے حضرات نے ادھر ادھر بیٹھنا شروع کردیا تھا، اگر واپس آجائیں تو ٹی ہائوس کی مذکورہ ’’ویرانی‘‘ بھی دورہوسکتی ہے اور یہ گوشہ پھر سے زندہ ہوسکتا ہے۔ اکادمی ادبیات نے نامور شاعر شہزاد احمد، جسے مرحوم لکھنے کو جی نہیں چاہتا، پر ڈاکٹر ضیاء الحسن کی مرتب کردہ کتاب چھاپ دی ہے جو ’’نیاادب کے معمار‘‘ ہی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر تحسین فراقی کی زیرادارت شائع ہونے والے سہ ماہی ’’مخزن ‘‘ نے یہ تازہ شمارہ اس کی یاد کے لیے مخصوص کیا ہے جس کے ذریعے شاعر کے بارے میں بیش قیمت معلومات حاصل ہوتی ہیں جبکہ صاحبِ طرز اور جدید شاعر عامر سہیل کے دوتازہ مجموعے اشاعت کے مراحل طے کررہے ہیں۔ پچھلے دنوں جدید غزل کے ممتاز شاعر قمر رضا شہزاد کے حال ہی میں شائع ہونے والے تازہ مجموعۂ کلام ’’یاددہانی‘‘ کے حوالے سے حلقۂ ارباب ذوق میں ایک پررونق نشست کا اہتمام کیا گیا اور ، ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ چند ماہ پہلے پنجاب حکومت کی طرف سے حاصلِ عمرایوارڈ کی بقایا رقم اعزاز یافتگان کو ادا کردی گئی ہے، البتہ باہر سے آنے والے مہمان ادیبوں کے لیے قائم کی جانے والی اقامت گاہ کے بارے میں کسی پیش رفت کی کوئی اطلاع نہیں۔ اور آخر میں ایک تشویش ناک خبر کہ جدید غزل کے صاحبِ اسلوب شاعر ادریس بابر کا بریف کیس جس میں اس کا لیپ ٹاپ تیس ہزار روپے نقد اور پچاس ہزار کے سرٹیفکیٹ کے علاوہ ان کا پاسپورٹ اور قیمتی دستاویزات بھی تھیں، یوای ٹی کی کنٹین سے کسی نے اڑا لیا جبکہ ’’چور‘‘ اب ان سے اسّی ہزار روپے بطور تاوان طلب کررہے ہیں۔ اس وقوعے کاتھانہ گجرپورہ میں پرچہ درج ہوچکا ہے لیکن تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی توجہ کے لیے ! فی زمانہ جدید ہونا ہی کافی نہیں بلکہ شاعر کے لیے ضروری ہے کہ ایک جگہ پرقانع ہوکر اور جم کر نہ بیٹھ جائے بلکہ اپنے آپ کو اپ ڈیٹ بھی کرتا رہے، اور اس راز سے انعام ندیم بخوبی واقف ہے۔ میں شعر کی تکابوٹی کرنے اور مضمون ومعافی نکالنے کا قائل نہیں ہوں۔ شعر کے لیے کافی ہے کہ قاری، یعنی کمپیٹنٹ قاری کو قائل بھی کرتا جائے اور حیرت وحسرت میں مبتلا بھی ، اور، اسے آرام سے بیٹھنے نہ دے، مطالعہ کے بعد بھی اسے ہانٹ کرتا رہے۔ میراخیال یہ بھی ہے کہ شعر مضمون سے جتنا خالی ہو، معانی سے اتنا ہی بھرپور ہوتا ہے، حتیٰ کہ بات کچھ بھی نہیں ہوتی اور شعر بن جاتا ہے جبکہ بنیادی شرط شعر کا بننا ہی ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ انعام ندیم کو شعر بنانا آتا ہے۔ یہ راستہ سیدھا بھی ہے اور دشوار گزار بھی، اور یہ شاعر پوری حوصلہ مندی سے اس پر آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے کچھ تازہ شعر دیکھیے: یہ ستارہ جو نیا ہے، اس سے کوئی رشتہ ہے ، پرانا میرا رہ گیا جانے کہاں پر دیکھو آنے والا تھا زمانہ میرا دیکھتا ہوں ہرقدم مڑ مڑ کے میں دل سے دنیا کی طرف آتا ہوا ایک دن پہنچوں گا اس تعبیر تک خواب سے آگے گزر جاتا ہوا وہ ہمسفر ہے شاید، وہ ہمسفر نہیں ہے دل کے معاملے کی دل کو خبر نہیں ہے جی بھر کے دیکھ لیجے دنیا کا یہ تماشا بس ایک بار کا ہے ، بارِدگر نہیں ہے کوئی مشعل بدست تھا جس کا قافلے میں شمار تھا ہی نہیں میں نے جس کو غبار سمجھا تھا درحقیقت غبار تھا ہی نہیں دیکھ لیجے مکانِ دل پہلے پھر جہاں چاہے جی وہاں رہیے چھوڑیئے کیا ہے آسماں سے پرے آپ بس زیرِآسماں رہیے آج کا مطلع آپ کی وقتاً فوقتاً مہربانی کے بغیر کیسے چل سکتی ہے گاڑی تیل پانی کے بغیر