آپ کے ساتھ ساتھ کافی عرصے سے مچھلی خوروں کا بھی مطالبہ سامنے آرہا تھا کہ آپ لوگوں کا صفحہ چھاپ کر اس عظیم حق تلفی کا ازالہ کیا جائے جو اس سلسلے میں کی جارہی تھی۔ ویسے تو مچھلی ہر طبقے میں نہایت ذوق و شوق سے کھائی جاتی ہے لیکن سمندر اور دریائوں کے قریبی علاقے اس ضمن میں بطورِ خاص مشہور ہیں۔ دریائی مچھلی البتہ اس لیے نایاب ہورہی ہے کہ دریائوں میں پانی ہی باقی نہیں رہا حتیٰ کہ دریائے راوی کو بڈھا دریا کہا جانے لگا ہے، چنانچہ جگہ جگہ مچھلی فارم قائم کیے جارہے ہیں۔ دریائی مچھلی اور فارمی مچھلی میں وہی فرق ہے جو عام گھوڑے اور دریائی گھوڑے میں ہوتا ہے۔ چنانچہ دریائوں میں پانی صرف سیلاب کے دنوں میں ہی آتا ہے اور ملک کا ایک بڑا حصہ دریا ہی کی مثال پیش کررہا ہوتا ہے۔ آئے دن آپ لوگوں کو جو بھارتی اہلکار پکڑ کر لے جاتے ہیں، ہم اس پر بھی اپنا احتجاج رجسٹر کرواتے رہیں گے، تاہم ان کے علاقے میں داخل ہونے سے آپ بھی اجتناب کیا کریں۔ اس صفحے کا اجراء آپ کو مبارک ہو۔ اگرکبھی کبھار تھوڑی بہت مچھلی بھی سٹاف ہذا کے لیے بھجوا دیا کریں تو یہ صفحہ باقاعدگی سے شائع کرتے رہنا ہمارے لیے آسان رہے گا۔ سبق آموز واقعات ٭ ایک صاحب مچھلی کے شکار کے لیے صبح صبح گھر سے نکلے اور دریا کے کنارے (یہ اُن دنوں کی بات ہے جب دریائوں میں پانی وافر ہوا کرتا تھا) کُنڈی لگا کر بیٹھ گیا۔ ان کے ایک واقف کار بھی آکر ان سے کچھ فاصلے پر مچھلیاں پکڑنے بیٹھ گئے۔ شام تک وہ صاحب چھوٹی چھوٹی دس بارہ مچھلیاں ہی پکڑنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ دوسرا شخص کوئی پانچ کلو وزنی مچھلی کاندھے پر رکھے چلا آرہا ہے۔ وہ اسے دیکھ کر پریشان ہوئے اوربولے ’’اوئے تم نے دن بھر میں بس ایک ہی مچھلی پکڑی ہے؟‘‘ ٭ ایک انگریز سمندر کے کنارے پہاڑی پر چہل قدمی کررہا تھا کہ اچانک اس کا پائوں رپٹا اور وہ نیچے لڑھک گیا لیکن گرتے گرتے اس کا ہاتھ وہاں ایک درخت کی ٹہنی پر جاپڑا جسے پکڑ کر وہ لٹک گیا اور گھبرا کر آوازہ بلند کیا، ارے کوئی ہے؟ جس پر اسے آواز آئی کہ میں ہمیشہ کی طرح موجود ہوں۔ ٹہنی کو چھوڑ دو، تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ اس نے نیچے نگاہ ڈالی تو بہت ساری شارکیں پانی میں منہ پھاڑے اس کی منتظر تھیں جنہیں دیکھ کر وہ بولا، ارے کوئی اور بھی ہے؟ ٭ ایک پرانی حکایت کے مطابق، حالانکہ یہ واقعہ خاصا احمقانہ لگتا ہے، ایک صاحب مچھلی خریدنے بازار گئے تو دکان کی پیشانی پر لگا یہ بورڈ پڑھ کر کہ یہاں مچھلی فروخت ہوتی ہے، دکاندار سے بولے، اس بورڈ میں ’’یہاں‘‘ کا لفظ فالتو ہے، اسے مٹا دینا چاہیے چنانچہ دکاندار نے وہ لفظ مٹا دیا۔ اس کے بعد وہ صاحب بولے کہ ’’فروخت ہوتی ہے‘‘ بھی فالتو ہے کیونکہ تم مچھلی بیچتے ہو یہاں خریدتے تو نہیں۔ اس پر دکاندار نے وہ الفاظ بھی مٹا دیئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ صاحب بولے ’’مچھلی کا لفظ بھی فالتوہے کہ مچھلی کی بُو سونگھ کر دور سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ مچھلی کی دُکان ہے! حکمت کے موتی ٭ مگر مچھ مچھلی کے بزرگوں سے تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ مچھلی کا باپ اگر مچھ اور دادا مگر مچھ ہوتا ہے۔ تاہم یہ کھانے کے کام نہیں آتا بلکہ لوگ اس کی اپنی بیحد مرغوب غذا ہیں۔ ٭ مچھلی کا گوشت ہر جانور میں ہوتا ہے۔ مثلاً بکرے کی ٹانگوں میں بھی مچھلی کا گوشت ہوتا ہے۔ اسے مچھلی کیوں کہتے ہیں، یہ کوئی قصاب ہی بتا سکتاہے۔ ٭ سمندر یا دریا کی گہرائی کا اندازہ لگانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہاں سے ایک مچھلی پکڑیں اور اس سے پوچھیں، بول میری مچھلی، کتنا پانی؟ وہ فوراً بتا دے گی۔ پسندیدہ اشعار مچھلی باہر گئی ہوئی تھی پانی کا مکان بے صدا تھا بہت زیادہ ضروری ہے مچھلیوں کی طرح یہ رات دن میر ی آنکھوں کا آب میں ہونا ضوفشاں تھی کس قدر مرتی ہوئی مچھلی کی آنکھ سطح پر آئی تو بحرِ بیکراں روشن ہوا نکل گیا ہے، ظفرؔ ہمیشہ کی طرح پھر سے ابھی جو مچھلی سا میرے ہاتھوں میں آ رہا تھا ہر شے مسافر، ہر چیز راہی کیا چاند تارے، کیا مُرغ و ماہی جے رب نہاتیاں دھوتیاں ملدا، ملدا ڈڈواں مچھیاں ہُو جے رب جنگل بیلے ملدا، ملدا کٹیاں وچھیاں ہُو عبرت انگیز واقعات ٭ ارنسٹ ہیمنگوے کے مشہور ناول ’’بوڑھا اور سمندر‘‘ میں ایک بزرگ اپنی کشتی پر مچھلی کے شکار کے لیے نکلتا ہے۔ دن بھر خاک چھاننے کے بعد اسے ایک بہت بڑی مچھلی دستیاب ہوتی ہے۔ وہ اتنی بڑی تھی کہ اس کی کشتی میں نہ سما سکتی تھی۔ چنانچہ اس نے کشتی کے ساتھ اسے مضبوطی سے ایک رسے سے باندھ دیا۔ جب وہ کافی فاصلہ طے کرکے ساحل پر پہنچا تو دیکھا کہ شارک نے ساری مچھلی چٹ کرڈالی تھی اور اب اس کا ڈھانچہ ہی باقی رہ گیا تھا۔ احتیاطی تدابیر ٭ کانوں، ماتھے اور گلے کے زیورات میں بھی ایک مچھلی ہوتی ہے لیکن یہ کھانے کے لیے نہیں بلکہ ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھانے کے لیے ہوتی ہے۔ ٭ مچھلی ہمیشہ سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے حکومتوں میں کرپشن ہمیشہ اوپرسے آغاز کرتی ہے! ٭ پورے تالاب کو گندہ کرنے کے لیے صرف ایک گندی مچھلی ہی کافی ہے اور اگر کم و بیش ساری مچھلیاں ہی گندی ہوں تو تالاب کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے! چنانچہ جب تک کتے کوکنوئیں اور گندی مچھلی کو تالاب سے نہیں نکالا جاتا، پانی کبھی صاف نہیں ہوتا۔ آج کا مطلع رہے کچھ راہ سے ہٹ کر‘ کبھی تھے راہ کے اندر بڑی مشکل سے پہنچے ہم تماشا گاہ کے اندر