برادرم شمس الرحمن فاروقی الٰہ آباد سے اپنا ’’خبر نامۂ شب خون‘‘ مجھے باقاعدگی سے ارسال کرتے ہیں جس کے لیے میں ان کا بے حد ممنون ہوں اور اپنے کالم میں اس پر اپنی تبصرہ نما رائے بھی دیتا رہتا ہوں کہ ’’شب خون‘‘ جب سے شائع ہو رہا ہے میرا اس کے ساتھ مسلسل دلی تعلق ہے۔ بھارتی قارئین سے مجھے اسی پرچے نے روشناس کرایا اور فاروقی کے پسندیدہ شاعر ہونے پر مجھے فخربھی ہے کہ اپنے مضامین میںانہوں نے ہمیشہ جس محبت سے میرا ذکر کیا ہے میں شروع ہی سے ان کا شکر گزار رہا ہوں۔ اس ضمن میں میرے کلیات ’’اب تک‘‘ کی جلد اول پر ان کا تحریر کردہ دیباچہ بطورِ خاص قابل ذکر ہے۔یہ پرچہ مجھے محبی سہیل عمر کے توسط اورمہربانی سے باقاعدگی سے مل رہا ہے۔ ماسوائے شمارۂ اگست تا دسمبر 2012ء کے۔ اب کچھ دوستوں کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ شمارے میں انہوں نے میرے ایک کالم پر حسب ذیل تبصرہ کیا ہے: ظفر اقبال، غالب یا مغلوب میں اپنے بزرگ دوست اورکرم فرما جناب ظفر اقبال کا ممنون ہوں کہ انہوں نے ’’خبرنامۂ شب خون‘‘ نمبر 18 پر اس قدر دلچسپ تبصرہ لکھا۔ یہاں کے متعدد شاعروں بشمول مجروح سلطانپوری کے بارے میں جن رایوں کا انہوں نے اظہار کیا ہے، ان کا انہیں حق ہے اور میں ان پر کوئی تبصرہ نہیں کروںگا۔ ہندو پاک میں پھیلے ہوئے ان کے قارئین خود فیصلہ کریں گے۔ البتہ مجروح کے بارے میں ایک ذاتی بات ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مجروح صاحب کوکبھی اورکہیں یہ کہتے نہیں سنا گیا اور نہ ہی انہوں نے یہ بات لکھی کہ وہ خود کو فیضؔ صاحب سے بڑا شاعر سمجھتے ہیں۔ یہ بات وہ ضرور کہتے تھے کہ ان کے بعض شعر فیض صاحب کے نام سے مشہور ہوگئے ہیں اوران میں خاص طور پر وہ شعر جس کا پہلا مصرع: میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر، اس کے بارے میں وہ خود کہتے تھے کہ ایک بار وہ کراچی گئے تو انہوں نے دیکھا کہ کئی جگہ ان کے استقبالیہ رایت (Banner) لگے ہوئے تھے اور ان پر یہی شعر فیض صاحب کے نام سے درج ہے۔ اب اگربقول ظفر اقبال یہ شعر وہاں محسن بھوپالی کے نام سے مشہور ہے تو میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ سوائے اس کے کہ یہی لیل و نہار رہے تو کسی دن مجروح صاحب کا کوئی شعر ظفر اقبال کے نام سے مشہور ہوجائیگا۔ ظفر اقبال ایک بات اکثر کہتے رہے ہیں اور بے ثبوت کہتے رہے ہیں کہ شمس الرحمن فاروقی نے مجھے غالب سے بڑا شاعرقرار دیا ہے۔ جب تک وہ یہ بات بلا ثبوت کہتے رہے تو مجھے تردید کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اب انہوں نے شمیم حنفی کی سند دی ہے کہ حنفی صاحب کہتے ہیں فاروقی صاحب کی کتاب ’’لفظ و بیاں‘‘ میں ان کا یہ بیان موجود ہے۔ لیکن ظفر اقبال نے یہاں بھی کوئی مزید سند نہیں دی کہ حنفی صاحب نے کہاں یہ بات لکھی یا کہی۔ واضح رہے کہ میں نے کبھی نہیں کہا نہ کبھی لکھا کہ ظفر اقبال صاحب کوغالب پر تفّوق ہے اور نہ ہی میں ایسا سمجھتا ہوں اور یہ بھی واضح رہے کہ ’’لفظ وبیاں‘‘ نامی میری کوئی کتاب نہیں ہے۔ اب معاملہ ظفر اقبال اور شمیم حنفی کے درمیان ہے۔ مجھے اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ (شمس الرحمن فاروقی‘ الٰہ آباد خبر نامہ شب خون اگست تا دسمبر 2012ء صفحہ 39-40) اب میری یہ عاجزانہ وضاحت حاضر ہے کہ سب سے پہلے یہ شوشہ نئی دہلی سے چھپنے والے سہ ماہی ’’استعارہ‘‘ میں چھوڑا گیا تھا جس کے پہلے شمارے میں کسی زینب علی کے مضمون کا پہلا جملہ ہی یہ تھا کہ کیسا زمانہ آگیا ہے، ظفر اقبال کو غالب سے بڑا شاعر قرار دیا جارہا ہے۔ اس سے مجھے یہ گمان گزرا کہ یہ بات میرے دوست اور مداح شمس الرحمن فاروقی ہی نے شاید کسی لہر میں آ کر کہہ دی ہو کہ اتنی دلیرانہ بات وہی کہہ سکتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اس پرچے کے ایڈیٹر تو محمد صلاح الدین پرویز تھے لیکن اس کے پیچھے ذہن نابغہ گوپی چند نارنگ ہی کا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو فاروقی صاحب کو چاہیے تھا کہ اس انتہائی غیرذمہ دارانہ بیان کی خبر لیتے لیکن ایک تحریری ثبوت موجود ہونے پر بھی انہوں نے اس کاانکار یا اقرارمناسب نہ سمجھا۔ اس لیے میں اگر یہ بات کہتا بھی رہا ہوں تو بے ثبوت نہیں، جیسا کہ فاروقی نے لکھا ہے۔ دوسری مثال میں نے ڈاکٹر شمیم حنفی کی دی تھی جنہوں نے کراچی میں انتظار حسین اور مبین مرزا ایڈیٹر ’’مکالمہ‘‘ کی موجودگی میں کہا ہے کہ فاروقی صاحب کی کتاب ’’لفظ ومعنی‘‘ کے ایک مضمون میں یہ بیان موجود (اگرچہ کالم میں غلطی سے لفظ و بیان لکھا گیا) ہے۔ یہاں بھی انہیں وضاحت کردینی چاہیے تھی کہ ان کی کتاب ’’لفظ و معنی‘‘ اگرچہ موجود ہے جس کے پہلے ایڈیشن میں اس بیان کا ذکر بتایا گیا؛ چنانچہ اس سلسلے میں بھی فاروقی یہ لکھنے کی بجائے کہ اب یہ معاملہ ظفراقبال اور شمیم حنفی کے درمیان ہے، فون اٹھاتے اور شمیم حنفی صاحب سے پوچھتے کہ انہوں نے موصوف کے خلاف یہ بہتان کیوں تراشا ہے۔ انہوں نے اس بات کو بھی گول مول ہی رہنے دیا اور یہ بھی لکھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ شمیم حنفی نے یہ بات کب اورکہاں کہی۔ حالانکہ پوری صراحت سے یہ بات میں نے لکھ دی تھی کہ یہ واقعہ کراچی کا ہے۔ چنانچہ میں نے برادرم کا یہ بیان پڑھنے کے بعد شمیم حنفی صاحب سے فون پر اس کی تصدیق چاہی توان کا جواب تھا کہ مجھے اچھی طرح سے یاد نہیں کہ انہوں نے یہ بات کہی تھی، البتہ یہ بات ضرور یاد ہے کہ میں نے کہا تھا کہ سید وقار حسین سابق سربراہ شعبہ زبان انگریزی علی گڑھ یونیورسٹی نے اپنے مضمون میں یہ بات لکھی ہے کہ کچھ عرصے کے بعد ظفر اقبال کو اسی طرح پڑھا جائے گا جس طرح آج کل لوگ غالب کو پڑھتے ہیں۔ بقول ان کے یہ مضمون رسالہ ’’شعر وحکمت‘‘ کے دوسرے اور آخری شمارے میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں عمرے پر جارہا ہوں، ایک ماہ کے بعد واپس آئوں گا تو وہ مضمون ڈھونڈ کر آپ کو بھجوا دوں گا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ اس دوران فاروقی صاحب نے ڈاکٹر شمیم حنفی کو پھسلایا اور وہ اپنے بیان سے خدانخواستہ مکرگئے کیونکہ یادداشت پر بھی اتنا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کسی وقت بھی ساتھ چھوڑ سکتی ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ ایک انتہائی معقول ادیب کی بات کا اعتبار نہ کیا جائے۔ البتہ عمرے سے واپسی پر ان سے ایک بار پھر پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ ہوسکتا ہے، عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد ان کی یادداشت لوٹ آئی ہو۔ (جاری)