نام تو ان کا چودھری عبدالرزاق تھا لیکن چونکہ صدر بازار اوکاڑہ میں برتنوں کی دکان کرتے تھے، اس لیے رزاق برتنوں والے کے نام سے مشہور ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے بنیادی رکن اور عام کارکن تھے اور پارٹی عام کارکنوں ہی سے بنی تھی۔ حق بازار کی تنگ سی گلی میں ان کا گھر تھا جس کی بیٹھک میں اس پارٹی کی داغ بیل ڈالی گئی کیونکہ لاہور میں پارٹی قائم ہو چکی تھی اور وہاں سے گرین سگنل مل چکا تھا۔ چنانچہ وہیں یہ پھلی پھولی اور الیکشن 70ء میں اس نے کشتوں کے پشتے لگا دیئے اور بہت سے پرانے برج الٹا کر رکھ دیئے۔ میں نے اپنی عمر کا بہترین حصہ انہی لوگوں کے درمیان گزارا جبکہ رانا غلام صابر، رائو سکندر اقبال، حاجی محمد یار لاشاری، رائے صادق، رائے میاں خان اور شیخ ریاض اسی بیٹھک کی برکت سے وفاقی وزیر، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور صوبائی وزارت کے منصب پر پہنچے۔ ان میں سے رانا غلام صابر، رائو سکندر اقبال، رائے میاں خاں، شیخ ریاض، حافظ فتح محمد، صدیق جن اور کئی دوسرے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں جبکہ پرانوں میں سے رانا اظہر، سلیم باغی، حاجی لاشاری، منیر چودھری، مرزا اکرم اور عالم شیر خاں لودھی وغیرہ بقید حیات ہیں۔ رانا اکرام ربانی اور احتشام وغیرہ ان دنوں ابھی بہت چھوٹے تھے لیکن جلسوں جلوسوں میں شامل رہتے۔ ملک ظفر مسعود اور ملک قدیر جیسی یادگار نشانیاں بھی ابھی موجود ہیں۔ احمد حسین مناّ، رانا اکرام ربانی کے ساتھ نواز لیگ کے گھاٹ اتر گئے۔ اس کے اصل جوش و خروش کا زمانہ 70ء کے آس پاس ہی تھا۔ بھٹو مرحوم انتخابی جلسے سے خطاب کرنے آئے تو اب جہاں مارکیٹ کمیٹی کا دفتر ہے، ایک وسیع و عریض میدان تھا جہاں جلسے کا انتظام کیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کو رش کی وجہ سے عقبی سیڑھیوں سے چڑھا کر سٹیج پر لایا گیا تھا۔ اُن کی گاڑی کو غلام مصطفیٰ کھر ڈرائیو کرکے لائے تھے۔ جلسہ گاہ میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے کھڑے تھے اور سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ مقامی حضرات رائو خورشید علی خاں، شیخ ریاض اور سلیم باغی وغیرہ کی تقریروں کے بعد میں نے جب فخر ایشیا کے لقب سے بھٹو صاحب کو خطاب کی دعوت دی تو جلسہ گاہ بہت دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ بھٹو صاحب نے پیلے رنگ کی بشرٹ پہنی ہوئی تھی جس کی آستینیں نصف چڑھائی ہوئی تھیں اور جلسہ گاہ میں کئی مسلم لیگی لیڈر مثلاً میاں نذیر احمد وغیرہ بھی کھڑے نظر آئے جنہوں نے بعد میں الیکشن لڑا اور بُری طرح ہار گئے۔ میرے لیے صوبائی اسمبلی کے لیے ٹکٹ کی سفارش کی گئی تھی لیکن میں نے بوجوہ الیکشن لڑنے سے معذرت کر دی اور میرے نام کا ٹکٹ رائے میاں خاں کو دے دیا گیا جو لڑے اور اکثریت لے کر کامیاب ہوئے۔ پارٹی کے مقامی روح ورواں شیخ ریاض ہی تھے۔ رانا اظہر، پرویز پیجا اور دیگران سے مل کر انہوں نے پارٹی کے لیے دن رات ایک کر دیئے ۔ شیخ ریاض ٹینس کے مشاق کھلاڑی تھے، ’’بڑا بھائی‘‘ کہلاتے اور شہر کی مقبول شخصیتوں میں سرفہرست تھے۔ تاہم الیکشن 77ء کے بعد پارٹی کا شیرازہ بکھرتا چلا گیا۔ حنیف رامے نے پارٹی چھوڑ کر اپنی مساوات پارٹی بنا لی۔ رائو سکندر پارٹی ٹکٹ پر کامیاب ہو کر جنرل مشرف کے کلاس فیلو ہونے کے ناتے اپنے گروپ کے ہمراہ سرکاری پارٹی میں چلے گئے، بعد میں ق لیگ میں شامل ہوئے، اسی پارٹی سے الیکشن لڑا اور بُری طرح ہار گئے۔ ان کی اہلیہ شفیقہ سکندر اپنے صاحبزادوں کے ہمراہ پہلے نواز لیگ میں شامل ہوئیں اور اب پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رائو سکندر کی ہاری ہوئی سیٹ سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ اب واپس چلتے ہیں چودھری رزاق کی طرف۔ 80ء کی دہائی میں اپنا کاروبار چھوٹے بھائی مرزا اکرم کے سپرد کر کے لاہور ہجرت کر آئے۔ بہت عرصے کے بعد پتہ چلا کہ برانڈرتھ روڈ پر کاروبار کرتے ہیں۔ میں خود لاہور میں تھا اور مسلسل ان کی کھوج میں بھی، حتیٰ کہ ان کے برادر نسبتی اور پریس کلب اوکاڑہ کے بانی اور تاحیات صدر منیر چودھری نے ان کا اتا پتا بتایا کہ جوہر ٹائون میں اپنا گھر بنا لیا ہے اور ان کے بیٹے عاطف اور کاشف حفیظ سنٹر میں الیکٹرونکس کا تھوک کا کاروبار کرتے ہیں۔ میں ان سے مل کر پچھلی یادیں تازہ کرنا چاہتا تھا، اپنے چھوٹے بیٹے جنید اقبال کو ابتدائی ملاقات کے لیے بھیجا جو ان سے گھرجا کر ملا اور حفیظ سنٹر جا کر کاشف سے بھی۔ میں نے بعد میں ملاقات کے لیے فون کیا تو بتایا کہ ان کی ہمشیرہ امریکہ سے آئی ہوئی ہیں اور وہ ان کے ساتھ فیصل آباد جا رہے ہیں، واپسی پر ملنے کے لیے آئیں گے۔ ابھی میں ملاقات نہ ہونے اور اپنی سست روی پر شرمندہ ہی ہو رہا تھا کہ مرزا اکرم نے بتایا کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ دبئی میں ان کے بیٹوں نے دو ہوٹل قائم کر رکھے تھے جن سے ملنے کے لیے گئے ہوئے تھے کہ دل کا دورہ پڑا اور ہسپتال پہنچ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ میرا خیال ہے کہ جملہ کارکنوں میں میرا سب سے زیادہ دلی تعلق چودھری رزاق کے ساتھ ہی تھا۔ وہ ایک عجیب زمانہ تھا اور اتنی جلدی گزر گیا کہ یقین ہی نہیں آتا۔ عمر میں مجھ سے بہت چھوٹے تھے لیکن مجھ سے پہلے ہی اللہ بیلی ہو گئے۔ اب سنا ہے کہ رائو سکندر کی بغاوت کے بعد اوکاڑہ میں پیپلز پارٹی کا وہ زور شور نہیں رہا۔ لہٰذا شفیقہ بھابھی کے لیے یہ ایک کڑی آزمائش ہو گی کیونکہ عام اندازہ یہی ہے کہ اب وہاں مسلم لیگ نواز گروپ بوجوہ مضبوط ہو گیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی پنجاب بھر میں عمومی حالت ویسے بھی پتلی ہے۔ چنانچہ اگر عمران خاں نے صفایا نہ کر دیا تو یہاں سے پیپلز پارٹی کی کامیابی کے امکانات کچھ زیادہ نہیں ہیں کہ پارٹی کا مقامی ڈھانچہ پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اگرچہ شہر میں رائو برادری ایک معقول تعداد میں آباد ہے اور ایک سیاسی پس منظر کی مالک بھی ہے، اس لیے اس نشست پر کانٹے دار مقابلہ بھی ہو سکتا ہے۔ رائو سکندر چونکہ جنرل مشرف کے انتہائی قریبی تھے۔ اس لیے انہوں نے دل کھول کر فنڈز حاصل کیے اور جتنا ڈویلپمنٹ کا کام انہوں نے اوکاڑہ میں کروایا وہ مرحوم کے نام پر ہمیشہ یادگار رہے گا کیونکہ اتنا کام اور خاص طورپر جو نظر بھی آ رہا ہے، شاید کسی بھی قومی اسمبلی کے حلقے میں نہ ہوا ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود جنرل مشرف کا ساتھ دینے کی سزا انہیں مل کر رہی اور ایک سابق یو سی ناظم سے جو واقعتاً سیاسی گمنامی کا شکار تھے، ہزاروں ووٹوں سے ہار گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شفیقہ سکندر اور ان کے صاحبزادے ناراض کارکنوں کو منانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں اور اپنا کھویا ہوا مقام کیونکر حاصل کرتے ہیں۔ اب آخر میں مرحوم کے لیے دعائے مغفرت، لواحقین کے ساتھ دلی تعزیت اور تلقین صبر۔ آج کا مقطع ظفرؔ، مرے خواب وقت آخر بھی تازہ دم تھے یہ لگ رہا تھا کہ میں جوانی میں جا رہا تھا