نظم کے بارے میں میرا خیال ہے کہ یہ کہیں سے بھی شروع کرکے کہیں بھی ختم کی جاسکتی ہے بلکہ جہاں آپ نے اسے ختم کیا، وہیں سے کسی وقت بعد میں دوبارہ بھی اسے جاری کرسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ جہاں یہ ختم ہوئی ہو، کوئی دوسرا بھی اسے وہیں سے آگے بڑھا سکتا ہے کیونکہ نظم کبھی ختم نہیں ہوتی۔ نظم سے لطف اندوز ہونے میں ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ قاری اسے غزل کی طرح سے اپنے اندر اتارنے کی کوشش کرتا ہے اور ناکام رہتا ہے کہ غزل جس اختصار کا نمونہ ہوتی ہے نظم میں اس کا حصول ممکن نہیں ہے کیونکہ غزل کے شعر کا معاملہ دو مصرعوں میں نمٹ جاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ غزل سے لطف اندوز ہونے کا زیادہ تر تعلق دل سے ہے جبکہ نظم پڑھتے وقت دل کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی بروے کار لانا پڑتا ہے۔ غزل کا ایک مخمصہ یہ بھی ہے کہ اس نے قاری کو تساہل پسند بنا دیا ہے اور نظم کے مطالعہ کے دوران بھی دل ہی کو شامل کرنا کافی سمجھتا ہے اور لطف اندوزی کے دائرے کو خود ہی محدود کرلیتا ہے۔ نیز غزل اگر آج بھی مقبول ترین صنف شعر ہے تو اس کی ایک وجہ اس کا اختصار و ایجاز بھی ہے کہ شعر و ادب کودینے کے لیے قاری کے پاس وقت بھی روز بروز کم ہوتا جارہا ہے اور غزل کا شعر چونکہ دو مصرعوں کی مکمل نظم ہی ہوتا ہے اس لیے وہ غزل کے شعر ہی سے اپنا کام نکالنا زیادہ سودمند سمجھتا ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ رویہ تبدیل بھی ہورہا ہے کیونکہ آ ج کے مصروف ترین زمانے میں جو قاری غزل کیلئے وقت نکال سکتا ہے، نظم کے لیے کیوں نہیں۔ پھر ورائٹی کا چسکا بھی اسے نظم کی طرف مائل کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ 60ء کی دہائی میں نظم کے حق میں اور غزل کے خلاف جو مہم چلائی گئی تھی، اس کے اثرات زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکے کیونکہ شاعر کے لیے بھی غزل، نظم سے زیادہ سہولت آمیز ہے اور اسی لیے آج بھی نہ صرف غزل پورے زور و شور سے کہی جارہی ہے بلکہ مقبولیت میں اضافے کے ساتھ اس کا فیشن بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے اور یہ اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کرنے میں بھی لگی رہتی ہے تاکہ نظم اور زمانے کے ساتھ ساتھ چل سکے۔ غزل کا شعر عام قاری کیلئے بھی اس لیے کشش رکھتا ہے کہ وہ اسے ’کوٹ‘ بھی کرسکتا ہے اور مثلاً کالم نگار اسے سہولت سے استعمال بھی کرسکتا ہے جبکہ نظم یا اس کے کسی حصے کا اپنی تحریر میں حوالہ دینا زیادہ ترجیح نہیں رکھتا۔ تاہم ان ہر دو اصناف کا آپس میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ صرف بعض نظم گو شعراء اس بارے اپنے تحفظات پر زیادہ زور دیتے رہتے ہیں۔ تاہم غزل کی طرح اب نظم بھی مقبولیت کی طرف رواں دواں ہے۔ بیشک میرؔ اور غالبؔ صرف اپنی غزل کی وجہ سے زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے بھی۔ غزل ہو یا نظم، اس کا حقیقی پیمانہ یہی ہے کہ وہ قابل مطالعہ کس حد تک ہے، قاری کو لطف کتنا دیتی ہے اور قائل کس حد تک کرتی ہے یعنی آپ کو ساتھ لے کر چلتی بھی ہے یا نہیں۔ نیز یہ کہ وہ قاری کی ضروریات کہاں تک پوری کرتی ہے۔ بیشک قارئین کی درجہ بندی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایک اعلیٰ درجے کی نظم کے لیے اعلیٰ درجے کا قاری ہونا بھی از بس ضروری ہے جبکہ غزل کے لیے ہر قسم کا قاری چل جاتا ہے۔ کیونکہ کم تر درجے کی غزل کا قاری بھی اسی قبیل کا ہوتا ہے اور چونکہ ایسا قاری تعداد میں بہت زیادہ ہے، اس لیے کم تر درجے کی غزل کے مقبول ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں، یعنی جیسی روح ویسے فرشتے، یہی وجہ ہے کہ نظم کے مقابلے میں غزلیہ شاعری کے مجموعے دھڑا دھڑ شائع ہورہے ہیں جن کے مقابلے میں نظم کی کتاب کبھی کبھار ہی دستیاب ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ غزل ہی کے مجموعے میں چند نظمیں بھی ٹانک دی جاتی ہیں، اور بس۔ میرے آس پاس جو نظم گوحضرات دستیاب ہیں میں انہی کالموں میں ان کی نظمیں بھی پیش کرتا رہتا ہوں، بلکہ نثری نظم بھی میرے نزدیک پابند یا آزاد نظم جتنی ہی اہم ہے اور میں اسے مستقبل کی نظم بھی قرار دے چکا ہوں حتیٰ کہ منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے پانچ سات نثری نظمیں میں نے خود بھی کہہ رکھی ہیں تاہم ان نظم گو شعرا کی تعداد اتنی ہی ہے کہ انہیں ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ ان میں فرخ یار ایک ایسا شاعر ہے جو چھپنے کے لحاظ سے بہت خسیس واقع ہوا ہے۔ البتہ حال ہی میں اس کی نظموں کے دو مجموعے دستیاب ہوئے ہیں۔ ’’نیند جھولتے ہوئے لوگوں کے لیے لکھی گئی نظمیں‘‘ اور ’’مٹی کا مضمون‘‘۔ دونوں کتابیںعلی الترتیب 2009ء اور 2011ء میں شائع ہوئیں۔ ’’مٹی کا مضمون‘‘ مجلّہ ہے اور قیمت 230 روپے جبکہ دوسری کتاب پیپر بیک میں چھاپی گئی ہے جس کی قیمت 100 روپے رکھی گئی ہے۔ غزلوں کی ’’آلائش‘‘ سے بھی انہیں پاک رکھا گیا ہے۔ غزل ہو یا نظم، میں شعر کی تشریح و تفسیر اور چیر پھاڑ کا قائل نہیں ہوں، اس لیے کہ یہ شعر یا نظم کے معنی کو محدود کرتی ہے اور دوسرے یہ کہ میں اپنے آپ کو اس مشقت کا اہل بھی نہیں سمجھتا کیونکہ یہ نقاد کا کام ہے، اور اگر نقاد کا کام بھی دوسرے کرنے لگیں تو پھر نقاد کی کیا ضرورت رہ جائے گی جبکہ نقاد کی ضرورت پر پہلے ہی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے جو ایک طرح سے قاری کے راستے کی دیوار بھی ہے اور قاری کو اس بات پر مجبور کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ شعر کو اسی کی عینک سے پرکھا جائے۔ اس لیے ان مجموعوں میں سے چند نظمیں درج کرکے ہی اجازت چاہوں گا جبکہ ان پر عبدالرشید، آفتاب اقبال شمیم اور ابرار احمد جسے جغادری نظم گو اپنی اپنی ستائشی رائے کا اظہار کر چکے ہیں: محبت وہ ستارہ ہے/ جو سطح مرتفع پر /خیر کی خبریں سناتا ہے/ تر راتیں بھیگ جاتی ہیں/ بدن کی سیپیوں میں/خواہشوں کی بوند پڑتی ہے/ محبت ایسی نائو ہے/ جو بے آواز لوگوں سے/نہیں کھینچتی/اسے …ہم کھینچتے ہیں/ آب گم کی منزلوں پر/ سبز دریائوں سے/ گدلے پانیوں تک/محبت ایسا رستہ ہے/جو ہم خود سے نہیں چُنتے/ محبت ایسی چادر ہے/جسے ہم لوگ/طے کرکے نہیں بُنتے/ کسی نے لکھ دیا اس کو/ سو، ہم نے چُن لیا اس کو/کسی نے رکھ دیا اس کو/سو ہم نے /بُن لیا اس کو (پڑائو) زندگی تیرے بلاوے پہ چلے آتے ہیں/ سلسلہ وار!/ رہ آب رواں سے ہوتے/ چاک پر گھومتے/ ہنستے ہوئے‘ روتے روتے/ بزف کے آٹھویں موسم سے نکلتے ہوئے/ جلتے ہوئے/ پائوں لے کر/ دھوپ مُٹھی میں چھپائے/ شبِ زندانی میں/ جوق در جوق/ کوئی یاد پرانی لے کر نیند میں چلتے ہوئے…/ دن کی نشانی لے کر/شکل بُنتے ہوئے/ بے شکل جہاں کے اندر/مشعلیں تارہ کیے/ چاند کی عریانی میں/ زندگی تیرے بلاوے پہ/ چلے آتے ہیں (سلسلہ وار) چین سے چائے کی/پتّیاں آگئیں/سہ پہر سج گئی/ ہم کہیں درمیان سے اٹھے/زندگی تیرے پیالے کو سیدھا کیا/اور امید سے بھر لیا/ جب ذرا سانس کی لو/ برابر کیے/شب اترنے لگی/ تیرا آنچل بُنا/ آسماں کرلیا/ دو گھڑی سو لیے/ بدحواسی کے اوقات سے/ چار فر سنگ پر/چاند کے سائے میں/ خوف کیسا ہمیں/ ہم دراوڑ زمینوں کی کھیتی سے/ نکلے ہوئے لوگ ہیں/ ہم کہاں جائیں گے/یہ زمین چھوڑ کر/ہم کہاں جائیں گے/ اپنے پُرکھوں کی قبروں سے منہ موڑ کر/ ہم وہ سیّار ہیں/ جو اگر وقت کی تیز تر/ گردشوں میں الجھ بھی گئے/ تو پلٹ آئیں گے/تو کہاں، کن اندیشوں کے دالان سے دیکھتی ہے ہمیں/ تو سمجھتی ہے/ ہم بھی پرائی زمینوں سے آئے ہوئے/وہ مہم جُو ہیں جو بس ذرا دیر/رک کر چلے جائیں گے/ اور تجھے ان اندھیرے مکانوں کی بے ربط خاموشیوں سے اکیلے گزرنا پڑے گا/ مگر ہم کہاں جائیں گے/ ہم دراوڑ زمینوں کی کھیتی سے نکلے ہوئے لوگ ہیں/ ہم کہاں جائیں گے۔ (ہم نے کہاں جانا ہے) وہ عجب شام تھی/چب گماں کے تعصب میں محبوس ہوتی ہوئی خلق کو/اپنی کچلی ہوئی حیرتیں، اپنی محرومیاں/ آنگنوں میں بچھانے کی فرصت ملی/ سرخ گالوں سے چپکی ہوئی/ نیم جاں سردیاں/ گیسوئوں کی سیاسی میں گُھلنے لگیں/اور بسوں، ویگنوں، گاڑیوں کے تلے/خوش نما ساعتیں/ڈھیر ہوتی رہیں/ وہ عجب شام تھی/گفتگو کے جلے طاقچوں پہ دھرے/بے سبب حوصلے/ نیم رو آہٹوں سے الجھتے رہے/ اک ہجومِ شب و روز/سکتے میں تھا/ دھڑکنیں پسلیوں میں سماتی نہ تھیں/ہجر کی آنچ پر/قہر ڈھالے گئے/ آشنا راستوں پر کھڑے/سرکشیدہ شجر/ کاٹ ڈالے گئے/ موجِ آلام تھی/وہ عجب شام تھی۔ (وہ عجب شام تھی) آج کا مقطع اے ظفرؔ، وہ یار تھا کیسا کہ اس کے نین نقش خون میں شامل تھے، آنکھوں کے لیے نایاب تھے