ایک سیاستدان سے کسی دوست نے کہا کہ فلاں شخص آپ کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلاتا رہتا ہے۔ جواب میں سیاستدان نے کہا کہ کوئی بات نہیں، لیکن اسے بتا دو کہ اگر اس نے میرے بارے میں سچی باتیں پھیلانا شروع کردیں تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا! ہم صحافی لوگوں کو سیاستدانوں کے حوالے سے سچی باتیں کرنا پڑتی ہیں‘ یعنی وہ جنہیں ہم صحیح سمجھتے ہیں‘ ورنہ ہماری تحریریں کون پڑھے گا۔ اصولی طور پر صحافی غیرجانبدار ہوتا ہے اور اگر کوئی نہیں ہوتا تو اسے ہونا چاہیے کیونکہ معاشرے میں اس کی عزت و تکریم کو اسی پیمانے سے ناپا جاتا ہے۔ اس کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق یا جھکائو اس کی عزت میں کمی کا باعث ہوسکتا ہے، کیونکہ سیاست اور صحافت دو الگ چیزیں ہیں، انہیں آپس میں گڈمڈ نہیں کیا جاسکتا۔ میں اگر مسلم لیگ پر تنقید کرتا ہوں تو کون سی ایسی پارٹی ہے جس پر میں تنقید نہیں کرتا‘ اس لیے کہ یہ میرا حق ہے۔ سیاسی طور پر اگر دیکھا جائے تو اوکاڑہ میں میرا سارا خاندان مسلم لیگی ہے۔ ماضی کے وفاقی وزیر سے لے کر ارکان قومی و صوبائی اسمبلی میاں محمد زمان، میاں عبدالحق، میاں غلام محمد اور میاں نذیر احمد عمر بھر مسلم لیگی رہے اور ہیں۔ ضلع اوکاڑہ میں سالہا سال سے ضلعی صدر اور دیگر کلیدی عہدوں پر رہنے والے میرے متعدد اعزہ اس وابستگی کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ آنے والے الیکشن میں دو صوبائی نشستوں پر یہ لوگ مسلم لیگ کے ٹکٹ ہولڈر ہیں۔ میرا بیٹا وہاں پر اس جماعت کے ٹکٹ ہولڈرز کا سب سے بڑا سپورٹر ہے۔ یہ ساری کتھا اس لیے بیان کرنا پڑی کہ اگر میں میاں صاحبان پر تنقید کرتا ہوں تو یہ میرا صحافتی نقطہ نظر ہے۔ میری یا میرے خاندان کی سیاسی وابستگی ایک بالکل الگ معاملہ ہے اور اسے ہماری سیاسی وابستگی کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ میں خود مسلم لیگ سے پیپلزپارٹی میں آیا اور پھر اسے چھوڑ کر اس کے خلاف قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا لیکن اب میرا کسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں اور میری حیثیت صرف ایک دعا گو کی ہے کیونکہ عرصہ دراز سے عملی سیاست سے کنارہ کش ہوچکا ہوں۔ میاں صاحب پر تنقید اس حوالے سے کرتا ہوں کہ وہ موجودہ وقت کی مقبول ترین جماعت کے سربراہ ہیں اور میں‘ بزعم خویش‘ ا یک غیر جانبدار صحافی۔ میاں صاحب کے ساتھ میری ایک ملاقات بھی ہوچکی ہے جب وہ وزیراعلیٰ تھے۔ ہوا یوں کہ اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر صفدر محمود نے ایک ملاقات کے دوران مجھ سے کہا کہ وہ چند دنوں میں کچھ اہم لوگوں کی ملاقات میاں صاحب سے کروا رہے ہیں‘ میں بھی مل لوں۔ میں نے کہا کہ مجھے کیا ضرورت ہے ان سے ملنے کی تو انہوں نے کہا کہ احمد ندیم قاسمی بھی مل رہے ہیں، آپ بھی مل لیں۔ چنانچہ وہ ملاقات ہوگئی اور اٹھتے وقت میاں صاحب نے کہا‘ کوئی خدمت ہو تو بتائیں لیکن میں شکریہ ادا کرکے چلا آیا، حالانکہ میرے پاس کوئی ذاتی مکان نہیں تھا۔ اصل میں اس کالم کی شانِ نزول میاں صاحب کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے اپنی کئی بار کہی ہوئی بات ایک بار پھر دہرائی ہے کہ برسرِاقتدار آ کر وہ لٹیروں کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکلوائیں گے۔ اچھی بات ہے لیکن کہتے ہیں کہ گناہ گار کو پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو۔ ایسا کہتے وقت ان کی بات میں اثر بھی ہوتا ہے اور لوگ ان کی بات پر کان بھی دھرتے ہیں۔ اُمید ہے وہ اپنی ذات اور حامیوں کا بھی اسی نقطۂ نظر سے جائزہ لیں گے اور اگر کہیں بھی کوئی ناجائز دولت نظر آئی تو وہ ملک و قوم کو واپس کرائیں گے۔ مجھے یہاں کسی تفصیل میں جانے یا اس حوالے سے بدمزگی پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں ایسے سارے واقعات پوری تفصیل کے ساتھ اپنے کالموں میں بیان کر چکا ہوں جو میری آنکھوں کے سامنے رونما ہوئے۔ براہِ کرم وہ پیٹ پھاڑنے والی باتیں نہ کریں کہ پیٹ تو سب کے ساتھ لگا ہوا ہے اور حلال و حرام سے بھرا ہوا بھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن کے دنوں میں ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے کچھ باتیں زیادہ جوش و خروش سے کہنا پڑتی ہیں لیکن ان حضرات کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ لوگ ہر سیاستدان کے ماضی حال سے خوب اچھی طرح سے واقف ہوتے ہیں‘ اس لیے کہنے کی نہیں کرنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ اگر وہ عملی طور پر ملک کا لوٹا ہوا مال واپس لائیں گے تو پوری قوم اس کا اعتراف بھی کرے گی اور انہیں دعائیں بھی دے گی۔ علاوہ ازیں عمران خان سمیت جو حضرات مخالفین کے لیے افسوسناک زبان اور الفاظ استعمال کررہے ہیں، انہیں ان الفاظ کے کسی بہتر استعمال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ منقول ہے کہ ایک غزوے کے دوران حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دشمن کو گرا کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے اور خنجر سے اس کا کام تمام کرنے ہی والے تھے کہ اس نابکار نے ان کے منہ پر تھوک دیا۔ آپ نے اسے قتل کرنے کے بجائے یہ سوچ کر چھوڑ دیا کہ کہیں بارگاہِ خداوندی میں یہ نہ سمجھا جائے کہ انہوں نے اس شخص کو اپنی بے عزتی کا بدلہ لیتے ہوئے اور ذاتی عناد کی وجہ سے مار ڈالا! میاں صاحب ہی کی وہ واحد جماعت ہے جو بطور خاص اپنی کارکردگی کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹ مانگ سکتی ہے اور جو میاں شہباز شریف کے مساعی کی شکل میں نظر بھی آرہی ہے۔ اس لیے ذاتیات سے درگزر کرکے بھی وہ موثر انداز سے بات کرسکتے ہیں۔ کامیابی کس کا مقدر بنتی ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے لیکن اگر آپ کی شخصیت خود آپ سے ایک مناسب درجے کی متانت کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا خیال رکھنا آپ کے لیے بھی سود مند ہوگا جبکہ مذکورہ بالا کام کے لیے چھوٹے میاں صاحب ہی کافی، بلکہ کافی سے بھی زیادہ ہیں حالانکہ انہیں بھی اپنے آپ کو کسی بہتر انداز میں ڈھالنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ بھی اب لڑکے بالے نہیں رہے اور نہ ہی سنجیدہ فکر لوگ اس اچھل کود کو پسند کرتے ہیں۔ پندو نصائح میرا کام نہیں ہے نہ میں اس کام کا اپنے آپ کو اہل سمجھتا ہوں اور نہ ہی میں پاکیٔ داماں کا دعویٰ کرسکتا ہوں۔ تاہم میاں صاحب کو اپنے آئندہ پروگرام کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ صورتحال ان کے خلاف تیزی سے تبدیل ہورہی ہے‘ لہٰذا وہ کسی خوش گمانی میں ہرگز نہ رہیں۔ نتائج ان کی توقعات کے برعکس یا خلاف بھی برآمد ہوسکتے ہیں اور آخری بات یہ کہ ملک کو اس وقت کسی شعلہ بیان مقرر کی بجائے صحیح معنوں میں ایک سٹیٹس مین کی ضرورت ہے اور صاحب موصوف کے لیے یہ ایک ایسا موقع ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسا ثابت بھی کرسکتے ہیں۔ اگرچہ سیاست کی اس تھیلی کے چٹے بٹے ایک ہی جیسے ہیں‘ تاہم اپنے آپ کو دوسروں سے قدرے مختلف ثابت کرنا ہی اصل بات ہے! آج کا مقطع کیسا سفر‘ کہاں کی ملاقات‘ اے ظفرؔ اب کے تو آگئے ہیں یونہی پِھر پھرا کے ہم