نواز لیگ اس واضح بلکہ بھرپور کامیابی پر مبارک باد کی مستحق ہے جبکہ تحریک انصاف نے بھی اس حدتک سرپرائز دیا ہے کہ ایک بالکل نئی جماعت ہوتے ہوئے دوسرے نمبر پر آگئی ہے بلکہ خیبرپختون خوا میں سب کو پچھاڑکر آگے آئی ہے اور وہاں حکومت بھی بنانے جارہی ہے۔ نواز لیگ کا ایک بڑا کریڈٹ یہ بھی ہے کہ انہوں نے وفاقی حکومت کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے میں مدد پہنچائی جس کے نتیجے میں ایک نہایت روشن مثال یہ قائم ہوئی کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک سویلین حکومت کے ہاتھوں ایک دوسری سویلین حکومت کو انتقال اقتدار کی نوبت آئی اور یہ بجاطور پر ایک تاریخی کارنامہ ہے جس نے اس لحاظ سے بھی ملک میں جمہوریت کی بنیادیں مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ بات بالکل بجا طورپر کہی جارہی ہے کہ الیکشن کا انعقاد خود پاکستان کی کامیابی ہے جس کا سہرا الیکشن کمیشن کے سرپر تو سجتا ہی ہے، اس میں آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ اور خود افواج پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔اس کے علاوہ اور بڑی تبدیلی کیا ہوسکتی ہے کہ تمام تر خطرات ، دھوپ اور گرمی وغیرہ کے باوجود عوام نے اس الیکشن میں مثالی جوش و خروش سے حصہ لیا اور جس سے یقینا لوگوں کا جمہوریت کے حق میں گرتا ہوا یقین محکم ہوا ہے اور بیرونی دنیا میں بھی پاکستان کے وقار میں وہ اضافہ ہوا ہے جس کی اسے اشد ضرورت تھی۔ سندھ کے علاوہ ہرجگہ پیپلزپارٹی کی افسوسناک شکست صرف اور صرف اس کی بدحکومتی کا نتیجہ ہے جس سے اسے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس حوالے سے یار لوگ تمام سرحدیں پھلانگ گئے تھے اور جس انجام سے یہ پارٹی دوچار ہوئی ہے وہ صاف نظر بھی آرہا تھا جبکہ منظور وٹو اور گیلانی برادران کی شکست بھی غیرمتوقع ہرگز نہیں تھی، حتیٰ کہ اس انجام سے اس نے اپنے آپ کو ایک قومی پارٹی کی بجائے ایک ریجنل پارٹی میں تبدیل کردیا ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہی نہیں ہوسکا کہ لوگوں کے ذہنوں میں پہلے ہی ایک بہت بڑی تبدیلی آچکی ہے اور پرانے حربے بیکار ہوچکے ہیں حتیٰ کہ شہداء کی قبروں کی برکت نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا۔ ق لیگ کے ساتھ گٹھ جوڑ سے بھی اس کا نقصان ہوا جس کا شاید اسے پہلے احساس نہیں تھا، چنانچہ وہ کئی مقامات کو اسے بھی ساتھ لے کر بیٹھ گئی۔ حق بات تو یہی ہے کہ اس الیکشن نے جمہوریت کی سمت صحیح معنوں میں موڑ کر رکھ دی ہے اور اس کے مستقبل کا سفر آسان ہوگیا ہے۔ میاں نوازشریف کی طرف سے دوسری پارٹیوں کو مل بیٹھنے کی دعوت ایک مثبت طرز عمل ہے تاکہ مسائل کے حل کی کوئی صورت نکالی جاسکے جوکہ انتہائی غیرمعمولی اور گھمبیر ہیں اور آنے والی حکومت کے لیے ایک کھلے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم تمام تر اختلافات کے باوجود اگر ان بڑے بڑے مسائل پر ساری پارٹیاں متفق ہوجائیں تو ان سے عہدہ برآہوا جاسکتا ہے اور اگر میاں صاحب تنہا حکومت بنا لیں جس کے واضح امکانات نظر آرہے ہیں تو پھر مستقبل کا منظر کچھ زیادہ اطمینان بخش نظر نہیں آرہا۔ اگرچہ تحریک انصاف کی طرف سے ایک سطح پر یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ وہ نواز لیگ کے ساتھ حکومت میں شامل ہوسکتی ہے لیکن ایک تو نواز لیگ کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہوگی اور دوسرے خود تحریک اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دے گی اور اسے ایسا کرنا بھی چاہیے اور عمران خان دوٹوک الفاظ میں کہہ بھی چکے ہیں۔ نیز اس کے حامیوں کی خواہش بھی یہی ہوگی کہ اپوزیشن کا بھرپور کردار ادا کرنے کے بعد وہ اگلی بار بہتر نتائج دکھا سکے۔ کیونکہ اگر وہ حکومت میں شامل ہوتی ہے تو کان نمک میں جاکر خود بھی نمک ہوکر رہ جائے گی جبکہ یہ طرز عمل خودعمران خان کی طبع کے بھی خلاف ہوگا۔ جہاں تک سونامی کے برپا ہونے کا تعلق ہے تو اول تو یہ ایک انتخابی سلوگن ہی کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرے خیبرپختونخوا کی حدتک اس نے اپنا ایک جلوہ دکھا بھی دیا اور ایک ایسی جماعت کی طرف سے جو زیرو سے شروع ہوئی اور اتنے عرصے میں ملک کی دوسری بڑی جماعت کی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور ایک صوبے میں مخالفین کا صفایا ہی کردیا۔ اس لحاظ سے جماعت نواز لیگ کی بھی یہ ضرورت ہوگی کہ تحریک انصاف کے اپوزیشن میں ہونے کے باوجود اس کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر مفاہمت کا رشتہ قائم کرے تاکہ ملک کی گاڑی چلتی رہے۔ بہرحال ، انتخابات کا ہنگامہ ختم ہوچکا ہے اور پاکستان میں ایک نئی صبح طلوع ہوچکی ہے اور لوگوں نے گھروں سے باہر نکل کر جس والہانہ انداز میں ووٹ ڈالنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے، ان کی اپنی امیدوں اور تمنائوں کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کا ایک رویہ اختیار کرتے ہوئے بھی ایک توازن کا اہتمام کریں اور اپوزیشن کو بھی کسی انتہا پسندی کی طرف جانے کا موقعہ نہ دیں ۔اپوزیشن بھی کسی قسم کی بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے کیونکہ یہ عوام کی اپنی کامیابی ہے اور اس سے جو جو توقعات وابستہ کی جارہی ہیں، ان کے برآور ہونا بھی ضروری ہے۔ ہمارے قلم کار دوستوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ پچھلے تمام تر تحفظات کے باوجود اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار اداکریں کیونکہ اسی میں سب کی فلاح ہے۔ تنقید کے لیے تو ایک لمبا عرصہ پڑا ہے ۔فی الحال نئی حکومت کو ہرطبقے کے دلی تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کو جو چیلنج درپیش ہیں ان کا سامنا کرنا تنہا حکومت کے کھاتے میں ڈال دینا اور دور کھڑے ہوکر تماشا دیکھنا کسی طور مناسب نہ ہوگا ۔اہل خبر مسائل کے اس پہاڑ سے بخوبی واقف ہیں اور جو صاف نظر بھی آرہا ہے۔ ہوسکتا ہے بعض حضرات کے نزدیک انتخابات کے یہ نتائج ان کے لیے پسندیدہ نہ ہوں لیکن یہ بھی تو دیکھنا ہوگا کہ انتخابات کا یہ انعقاد خود ملک کی کامیابی ہے اور ملک کی اس کامیابی کا قائم رکھنا اور اسے صحیح معنوں میں نتیجہ خیز بنانا بھی اس کے لوگوں ہی کا کام ہے۔ وہ بیشک اپنی تنقید کی چھریاں کلہاڑیاں تیز رکھیں لیکن وہ اس سلسلے میں نہ صرف تعاون کریں بلکہ انتظار بھی کریں جوکہ ملک کی موجودہ خصوصی اور تشویش انگیز صورت حال کا تقاضا بھی ہے ۔ یہ تو ہم سب نے دیکھ لیا ہے کہ انتخابی مہم میں منفی ہتھکنڈے بری طرح ناکام ہوئے ہیں، مثلاً پیپلزپارٹی کی طرف سے الزامات کی بوچھاڑ کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلا بلکہ اس نے بیک فائر کیا کیونکہ اپنا ٹھوس پروگرام پیش کرنے اور کارکردگی پر انحصار کرنے کی بجائے گالی گلوچ اور الزام تراشی کو لوگ بھی پسند نہیں کرتے۔ پیپلزپارٹی والے دوستوں سے یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ الزامات اگر صحیح تھے تو آپ ان پر اتنے برس خاموش کیوں رہے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ اس کام کے لیے ایک ایسی ہستی کو منتخب کیا گیا جن کی اپنی حیثیت حد سے زیادہ مشکوک تھی۔ چنانچہ اس سرگرمی کا وہی نتیجہ نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ سوال اس وقت نواز لیگ کو کلین چٹ دینے کا نہیں ہے بلکہ مقبولیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ چیزوں کو صحیح تناظر میں دیکھا جائے اور ایسے اقدامات کے ممکنہ ردعمل کو بھی نظر میں رکھا جائے ۔ علاوہ ازیں اگر عمران خاں بھی اپنے خطابات میں اپنی زبان نرم رکھتے تو شاید مزید بہتر نتائج برآمد کرسکتے جبکہ ایسی بوچھاڑوں نے ان کی اپنی شخصیت کو گہنانے میں بھی ایک کردار ادا کیا اور جسے اس کے ہمدردوں نے بھی پسند نہیں کیا۔ آج کا مقطع دل جو ٹوٹے گا تو آواز بھی آئے گی‘ ظفرؔ کانچ کی چیز ہے اور ٹوٹنے والی بھی ہے