"ZIC" (space) message & send to 7575

احمد صغیر صدیقی کی شاعری …(2)

شعرلازمی طورپر وہ نہیں ہوتا جسے سنتے یا پڑھتے ہی آپ عش عش کراٹھیں یا دھمال ڈالنا شروع کردیں۔ یہ تو آپ کے گلے میں باہیں ڈال دیتا ہے اور آپ بھی اس سے اپنائیت محسوس کرنے لگتے ہیں گویا یہ آپ ہی کے دل کی آواز ہے۔ اسلوب شعر کے لیے لازمی شرط نہیں لیکن شعر کو شعر بنانے میں اس کا کردار ضرور ہوتا ہے، چنانچہ شعر آپ سے کچھ کہتا ہی نہیں، آپ کی سنتا بھی ہے کہ جو شاعری آپ کے اندر ہوتی ہے یہ اسی کے ساتھ مل کر ساری ہنگامہ آرائی کرتا ہے ۔ مطلب یہ کہ شعر آپ کے ساتھ کچھ کرجاتا ہے جس کا فوری طورپر آپ کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ اس شاعر کے کچھ اور شعر دیکھیے : اک خوف ہے چارسُوسفر کا دروازہ نہ کھول اپنے گھر کا گرد کی طرح سرراہگذر بیٹھے ہیں ان دنوں اورہی انداز سفر ہے اپنا کچھ دیر میں یہ دل کسی گنتی میں نہ ہوگا بیتاب بہت رائے شماری کے لیے ہے سنتا ہے یہاں کون ، سمجھتا ہے یہاں کون یہ شغل سخن وقت گزاری کے لیے ہے نہیں معلوم کیوں ہے یہ مری تخریب کاری خداجانے میں کیا تعمیر کرنا چاہتا ہوں چاردن کے عشق کو طول دیں ابدتلک تو کہیں گنوا مجھے، میں تراپتہ لگائوں وہ جو خوش تھا تو اسے بھی تھی نمائش منظور ہم بھی دلگیر ہوئے سب کو دکھانے کے لیے ہم کوظاہر بھی توہوناتھا سوروپوش ہوئے کہیں رُکنا بھی تھا واجب ،کہیں جانے کے لیے سو بہت دیرتلک اس سے رہی گفت وشنید کچھ نہ سننے کے لیے تھا،نہ سنانے کے لیے کب سے یہ شہرطلب حسرت تعمیر میں ہے وقت آیا ہے کہ مسمار کیا جائے اسے الفاظ ہیں جتنے بھی، سماعت کے لیے ہیں مفہوم کوئی اور اشارے میں چھپا ہے ایک کتاب ہی میں شامل مختصر تعارف کے مطابق آپ 1938ء میں یوپی، انڈیا میں پیدا ہوئے۔ ریٹائرڈ ڈپٹی ڈائریکٹر زرعی ترقیاتی بنک آف پاکستان ہیں۔ چارشعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں، ان کے علاوہ دوہزار سے زائدغیرملکی کہانیوں کے ترجمے کیے ہیں جو مختلف مجموعوں کی صورت میںشائع ہوچکے ہیں، نفسیات اور پراسرار علوم پر دودرجن سے زائد کتابیں، تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ ، جبکہ طبع زاد افسانوں کا مجموعہ زیرطبع ہے۔ کراچی میں رہائش رکھتے ہیں۔ ان کے کچھ اور شعر: ہمیں نہیں ہے اجازت کہیں بھی جانے کی خلائوں میں گلی کوچے بناتے رہتے ہیں وجود رکھتے ہیں اپنا بس ایک خواب میں ہم اسی میں خودکو مٹاتے بناتے رہتے ہیں جانے کیا چیز ہیں چھپائے ہوئے جانے کیا آشکار کررہے ہیں کررہے ہیں سفر کہ جانے ہم سیرگردوغبار کررہے ہیں اپنے دل کی مچان پر بیٹھے ہم خود اپنا شکارکررہے ہیں نظرآتے بہت ہی مختلف ہم ہمیں باردگردیکھا تو جاتا ادھر سے ہی ادھر دیکھا گیا بس ادھر سے بھی ادھر دیکھا تو جاتا سوچتا ہوں اب اس کا نام لے لیا جائے ہرکلام جائز ،سب روا ہے وحشت میں غم تو ہونٹوں پہ ہنسی بن کے بھی رہ سکتا ہے کیا ضروری ہے اسے دیدۂ تر میں رکھنا عاشقی ایک تمازت کے سوا کچھ بھی نہیں سائباں ڈھونڈنے والو یہ نگر دھوپ کا ہے کیجے نہ کیوں کہ اس کا تصوربھی خوب ہے کریے بھی کیا کہ ان دنوں فرصت بھی ہے بہت غزل جیسی پٹی ہوئی اور تقریباً ازکاررفتہ صنف سخن میں ایسے شعر نکالنا جو چبائے ہوئے لقمے نہ ہوں اور روٹین کی شاعری سے باہر نکلنے کی ایک کامیاب کوشش بھی نظرآتے ہوں، کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اس نے اپنے گردوپیش اور دل کے گردونواح کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو شعر بنادیا ہے جبکہ اس میں اس نے زیادہ تر صنعت تضاد سے کام لیا ہے جو اس لیے بھی جی کو لگتی ہے کہ یہ تو ساری کائنات ہی مجموعہ اضداد ہے، خود آدمی کی ذات اور خیالات میں جس قدر تضادات موجود ہوتے ہیں، انہیں بغیر کسی تکلف اور رکھ رکھائو کے بیان کردینا بجائے خود ایک تخلیقی رویہ ہے۔ اس کے کچھ اور شعر دیکھیے: کبھی نہ بدلے دلِ باصفا کے طورطریق عدوملا تو اسے بھی سلام کرتا رہے اوروں کی طرح شام کو گھر جانا خوب ہے لیکن جوگھر نہ ہو تو کدھر جانا چاہیے کھولیں وہ درکسی نے بھی کھولا نہ ہوجسے کوئی جدھر نہ جائے ادھر جانا چاہیے سوچا ہے کہ اب کے کوئی دیوار گرادیں کچھ اور ذرا گھر کو ہوادار کیا جائے اپنے رنگوں کو تماشے کا کوئی شوق نہیں مورجنگل ہی میں رہتے ہیں ،وہیں ناچتے ہیں وہ اپنے آپ ہی کچھ ڈھونڈتا نہیں ہے کیا میں کھوگیا ہوں اسے کچھ پتا نہیں ہے کیا آج کا مقطع ناشاعری میں ہم ہی یگانہ نہ تھے، ظفرؔ چلتارہے گا کام ہمارے بغیر بھی (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں