پیارے ٹھگو! ہمیں اس بات کا پورا پورا یقین ہے کہ آپ کی کامیابی محض آپ کی ذہانت کی مرہون منت ہے کیونکہ کڑی مشقت کرکے کھانا اور چیز ہے اور اپنا ہنر آزماکر مالا مال ہوجانا بالکل مختلف چیز ۔ ہم اسی لیے آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور آپ کی خوشنودی طبع حاصل کرنے کی غرض سے اس صفحے کا اجرا کررہے ہیں۔ سونے کی ڈلی پھینک کر راہگیروں سے استفادہ کرنے کا طریقہ اب کافی پرانا ہوچکا ہے اور اس فن شریف نے حیرت انگیز طورپر ترقی کرلی ہے جس کا اعتراف نہ کرنا پرلے درجے کی بددیانتی ہوگی۔ واضح رہے کہ یہ پیشہ چوری اور ڈکیتی سے کہیں بہتر اور مہذب واقع ہوا ہے کہ اس میں آپ فریق ثانی کو باقاعدہ قائل کرکے گوہر مراد حاصل کرتے ہیں حتیٰ کہ متاثر فریق بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ دراصل تو یہ دماغی صلاحیت کا ایک کھلا مقابلہ ہے جس میں فتح اسی کی ہوتی ہے جو ذہنی برجستگی سے مالا مال ہو اور فریق ثانی کو پتہ ہی نہ چلے کہ اس کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم آپ کی ژرف نگاہی کے دل سے قائل ہیں اور آپ کو اس نعمت غیرمترقبہ کا پورا پورا مستحق سمجھتے ہیں ۔ امید ہے یہ صفحہ آپ کو پسند آئے گا ۔ اپنی قیمتی رائے اور نادر مشوروں سے نوازنا نہ بھولیے گا۔ دعائوں میں یاد رکھیے گا ۔ سبق آموز واقعات ٭…یہ ایک سچا واقعہ ہے جوچند سال پیشتر اوکاڑہ میں رونما اور اخبارات میں رپورٹ بھی ہوا: زرق برق لباس زیب تن کیے ہوئے ایک خاتون شہر کے ایک بڑے ڈاکٹر کے پاس گئی اور کہا کہ وہ اور اس کا میاں نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں اور وہ اپنے شوہر کا ختنہ کروانا چاہتی ہے اور اس کے لیے منہ مانگی فیس دینے کو تیار ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر نے اس کے ساتھ منہ مانگی فیس طے کرلی جس کے بعد خاتون نے کہا کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گاڑی دے دیں تاکہ وہ اپنے شوہر کو کلینک میں لے آئے۔ ڈاکٹر نے اپنے ڈرائیور کو بلاکر کہا کہ خاتون کے ساتھ چلا جائے۔ خاتون گاڑی میں بیٹھ کر سیدھی شہر کے ایک بڑے جیولر کی دکان پر گئی اور اپنی پسند کا ڈھیر سارا زیور تلوالیا۔ جیولر نے بل بناکر اسے پیش کیا تو وہ بولی کہ وہ فلاں ڈاکٹر کی بیوی ہے اور اس کی گاڑی میں آئی ہے‘ وہ اگر اس کے ساتھ چلے تو کلینک جاکر وہ ادائیگی کروادے گی۔ چنانچہ وہ جیولر کو اپنے ساتھ لے کر کلینک گئی اور اشارہ کرکے بتایا کہ وہ انہیں جلد فارغ کردے۔ اس کے بعد وہ چپکے سے باہر کھسک آئی اور اسی گاڑی میں بیٹھ کر بس سٹینڈ پر پہنچی ، ڈرائیور کو فارغ کیا اور بس میں بیٹھ کر نودوگیارہ ہوگئی۔ ٭…بنارس کے ٹھگ اور ساڑھیاں مشہور ہیں۔ ایک شخص نے وہاں سے ایک قیمتی ہیرا خریدا جبکہ ایک ٹھگ بھی دیکھ رہا تھا چنانچہ وہ اس کے ساتھ ساتھ ہولیا۔ اس شخص کی منزل بہت دور تھی‘ وہ راستے میں شب بسری کے لیے ایک سرائے میں ٹھہرا جبکہ ٹھگ بھی کسی نہ کسی طرح اسی کمرے میں رات گزارنے میں کامیاب ہوگیا۔ جب شخص مذکورہ کی منزل قریب آئی تو ٹھگ نے کہا کہ اب تم کامیابی سے اپنی منزل کے قریب پہنچ گئے ہو، اس لیے میں تمہیں سچی بات بتادیتا ہوں کہ میں بنارس کا ایک بڑا ٹھگ ہوں۔ تم نے میرے سامنے ہیرا خریدا لیکن میں رات بھرتمہاری تلاشی لیتا رہا لیکن ہیرا مجھے نہیں ملا۔ آخرتم نے اسے کہاں چھپایا ہوا تھا، تو شخص مذکور نے کہا کہ میں بھانپ گیا تھا کہ تم میرا پیچھا کررہے ہو اور تمہاری نیت میں فتور ہے۔ چنانچہ رات کو سوتے وقت ہیرا تمہاری جیب میں ڈال دیتا تھا اور صبح کو نکال لیتا تھا ! ٭…ایک شخص شہر سے کچھ بھیڑیں ٹھگ کر لایا تو دوسرے دن اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ جاکر انہیں بیچ آئے۔ لڑکا شہر کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں بھیڑیں اس سے کسی اور نے ٹھگ لیں۔ بیٹا جب گھر آیا تو باپ نے پوچھا ، ’’بیچ آئے ہو ؟‘‘ ’’ہاں‘‘ بیٹے نے جواب دیا۔ ’’کتنے میں بیچیں؟‘‘باپ نے پوچھا ۔ ’’جتنے میں خریدی تھیں!‘‘بیٹے نے جواب دیا۔ پسندیدہ اشعار ہاں، کھائیے مت فریب ہستی ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے ……………… سیاہ زلفوں نے گھیرا ہے چاند چہرے کو یہ ٹھگ ہٹیں تو مسافر کو راستہ مل جائے ……………… کھاتا نہیں فریب کرتا نہیں بھروسہ ……………… زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب کہ حال دل کی انہیں سب خبر ہے، کیا کہیے اقوال زریں ٭…دھوکہ کھا لینا کسی کو دھوکہ دینے سے کہیں بہتر ہے۔ ٭…ڈبل شاہ نے اگر اربوں روپے اکٹھے کرلیے تو یہ اس کا ہنر تھا اور اگر وہ پکڑا گیا تو یہ اس کی بدقسمتی تھی۔ آج کا مطلع یہ سہولت ہی کوئی ہے نہ سہارا ہونا شہر میں پھر بھی غنیمت ہے تمہارا ہونا