ڈرون حملوں سے پاک امریکہ تعلقات میں تعطل آسکتا ہے …چودھری نثار وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے کہا ہے کہ ’’ڈرون حملوں سے پاک امریکہ تعلقات میں تعطل آسکتا ہے‘‘ لیکن خاطر جمع رکھیں، یہ تعطل آئے گا نہیں کیونکہ یہ نہایت سست رفتاری سے بلکہ پیدل ہی آرہا ہے اور اتنے سال گزرجانے کے باوجود ابھی تک اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچا جس کے آنے کا انتباہ گزشتہ حکومت کے دوران بھی بڑی شدومد سے کیا جاتا رہا، حالانکہ یہ سائنسی دور ہے اور آنے جانے کے لیے تیز ترین ذرائع کثرت سے دستیاب ہیں، انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملوں پر حکومت کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرے گی‘‘ اور، یہ ناپسندیدہ کارروائی کسی سمجھوتے کے بغیر ہی ہوتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ ملکی سلامتی کا معاملہ ہے‘‘ اور اس بات سے میں قوم کو پہلی مرتبہ آگاہ کررہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’قومی سکیورٹی پالیسی اتفاق رائے سے ترتیب دی جائے گی‘‘ اور اگر اس پر عمل نہ ہوسکا تو یہ بھی محض اتفاق ہوگا کیونکہ سارا زمانہ اتفاقات سے بھرا پڑا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا…عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا‘‘ لیکن یہ خیال بھی رکھنا ہوگا کہ ان سروں کو علیحدہ علیحدہ رکھا جائے تاکہ جڑے ہوئے سروں والے بچوں کی طرح اس کا آپریشن نہ کرنا پڑے، تاہم، اگر مجھے شمولیت کی دعوت دی گئی تو میں اپنا سر احتیاطاً ذرا فاصلے پر ہی رکھوں گا کیونکہ حفظ ماتقدم بہرحال ایک اچھی چیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’خیبرپختونخوا کو ماڈل صوبہ بنائیں گے ‘‘ اور یہ بات میں اپنی تقریروں میں اتنی بار کہہ چکا ہوں کہ اسے اب تک اپنے آپ ہی ماڈل صوبہ بن جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام کو دہلیز پر انصاف ملے گا‘‘ اس لیے جن کے گھرنہیں ہیں یا وہ خیموں وغیرہ میں رہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ جہاں بھی ہوں، پورا گھر نہ سہی، کم ازکم دہلیز ضرور بنالیں، ورنہ کہیں ایسا نہ ہوکہ دہلیز نہ ہونے کے باعث انصاف کو الٹے پائوں واپس آنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اتحادکی ضرورت ہے‘‘ جس کے لیے حکومت کے ساتھ درپردہ اتحاد بھی ہوسکتا ہے جو گزشتہ پانچ برسوں میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ نہایت کامیابی سے چلارہے ہیں کیونکہ میاں صاحب نے جب کہہ دیا ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے تو ایسے نیک اتحاد سے باہر رہنا ویسے بھی کفرانِ نعمت کے برابر ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے۔ زمینی حقائق کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جائے…الطاف حسین متحدہ قومی محاذ کے قائدالطاف حسین نے کہا ہے کہ ’’زمینی حقائق کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جائے‘‘ اور، چونکہ مون سون جاری ہے، اس لیے کسی بھی ٹھنڈے دن کو ان پر غور کیا جاسکتا ہے اور میں بھی کوشش کروں گا کہ آئندہ سے کچھ ٹھنڈے ٹھار بیانات بھی دیا کروں جوکہ موسم کے عین مطابق ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک نازک دور سے گزررہا ہے‘‘ اور حق بات تو یہ ہے کہ یہ جس دن وجود میں آیا تھا، اسی دن سے نازک دور سے گزررہا ہے، اس لیے اس سلسلے میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ اس کے لیے ایک معمول کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’لفاظی استعمال کرکے کوئی قوم ترقی یافتہ نہیں بن سکتی‘‘ اسی لیے میں بھی اپنی تقریروں میں کم سے کم الفاظ استعمال کرتا ہوں اور زیادہ کام اشاروں کنایوں ہی سے لیا کرتا ہوں، لیکن افسوس کہ کوئی میرے اشاروں کو سمجھ نہ سکا۔ آپ اگلے روز لندن سے رابطہ کمیٹی کے ارکان سے گفتگو کررہے تھے۔ اور آخر میں خانہ پری کے لیے یہ تازہ غزل: میں سانس لے نہیں سکتا ہوا رکاوٹ ہے رُکا ہوا ہوں کہ خود راستہ رکاوٹ ہے کبھی ہماری ملاقات ہو نہیں سکتی کہ پہلے خلق تھی اور اب خدا رکاوٹ ہے میں کس طرح سے بھلا ہو سکوں گا صحت یاب دوا تھی پہلے مگر اب دعا رکاوٹ ہے ترے تلک جو یہ آواز جا نہیں سکتی کہ راہ میں مری اپنی صدا رکاوٹ ہے سوال میں کوئی الجھن ہے سدِّ راہ الگ جواب میں کوئی مشکل جدا رکاوٹ ہے کریں بھی کیا کہ اشارہ ہی اتنا مبہم تھا خبر نہیں یہ اجازت ہے یا رکاوٹ ہے کئی تو بے دھڑک آ جا رہے ہیں چاروں طرف مگر کسی کے لیے جا بجا رکاوٹ ہے طرح طرح کی رکاوٹ ہے، دیکھتے جائو کوئی روا تو کوئی ناروا رکاوٹ ہے میں اس کو توڑوں گا اور پھرجواب دوں گا ظفر ابھی بتا نہیں سکتا ہوں کیا رکاوٹ ہے آج کا مطلع چارسو پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا