غیرقانونی بھرتیوں سے تنخواہوں کی ادائیگی میں دشواری آرہی ہے …قائم علی شاہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ’’غیرقانونی بھرتیوں سے تنخواہوں کی ادائیگی میں دشواری آرہی ہے‘‘ حالانکہ ہمارے سمیت سابقہ وفاقی حکومت نے پی آئی اے ، سٹیل مل اور دیگراداروں میں غیرقانونی بھرتیاں پوری نیک نیتی سے کی تھیں لیکن فلک کج رفتار کو ہماری یہ ادا پسند نہ آئی تاہم یہ جملہ افسراور ملازمین اب تک جتنی تنخواہیں اور مراعات حاصل کرچکے ہیں، اصولی طورپر انہیں انہی پر قناعت کرنی چاہیے جبکہ علاوہ ازیں بھی انہوں نے حکومت کی طرح اپنی خوشحالی میں خاطرخواہ اضافہ کرلیا ہے۔ چنانچہ اب ان اداروں کی پرائیویٹائزیشن کے بعد وہ نئے مالکان سے تنخواہوں کی ادائیگی کی امید رکھ سکتے ہیں، تاہم جہاں تک ہماری صوبائی حکومت کا تعلق ہے تو قبلہ مظفر اویس ٹپی صاحب ہی کرتا دھرتا تھے اور خاکسار کو تو صرف شامل باجے کی حیثیت حاصل تھی جبکہ اب تو وہ باقاعدہ وزیر کی حیثیت سے سامنے آگئے ہیں۔ اس لیے میرا کام اور بھی آسان ہوگیا ہے کیونکہ دستخط کرنا کوئی مشکل کام ویسے بھی نہیں ہے اور خاکسار کو اس کی مشق بھی کافی حدتک ہوچکی ہے جبکہ میری عمر کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کام وغیرہ سے حتی الامکان پرہیز کروں ۔ آپ اگلے روز حیدرآباد میں پریس کانفرنس کررہے تھے۔ حکومت نے ریکارڈ قرضہ لے کر ریکارڈ مہنگائی کردی …پرویز اشرف سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ’’حکومت نے ریکارڈ قرضہ لے کر ریکارڈ مہنگائی کردی‘‘ جبکہ خاکسار نے جوریکارڈ قائم کیے تھے اور آخری دنوں میں جن کی دھوم مچادی تھی وہ اعلیٰ عدلیہ کے زیر مطالعہ ہیں اور جس میں ناگوار نتائج نکلنے کا بھی خدشہ ہے حالانکہ یارلوگ اکٹھے ہوکر یہ سارا کچھ کرکے ملک وقوم کی خدمت ہی سرانجام دے رہے تھے اور ہم سب بھی اسی قوم کا حصہ ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم ابھی بقایا قوم کی خدمت کا ارادہ کرہی رہے تھے کہ ہماری میعاد ہی ختم ہوگئی جس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ میعاد کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ن لیگ کو اقتدار میں آنے کا یقین نہیں تھا‘‘ جبکہ ہمیں تو اس انجام سے دوچارہونے کا پورا یقین تھا کیونکہ عوام کی خدمت کچھ زیادہ ہی کر بیٹھے تھے جو انہیں ہضم نہیں ہوئی۔ اس لیے اسے اپنا ہاضمہ درست کرنے کی طرف پہلی فرصت میں توجہ دینی چاہیے جبکہ ہمارے ہاضمے کی تو ایک دنیا گواہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انتقامی کارروائیاں جمہوریت کے مفاد میں نہیں‘‘ کیونکہ ہماری مساعی جمیلہ کے حوالے سے جوبھی کارروائی ہوگی ہم اسے انتقامی کارروائی ہی سمجھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ن لیگ نے ترجیحات کا اعلان ہی نہیں کیا‘‘ جبکہ ہماری ایک ہی ترجیح تھی جس کے مطابق ہی سارا کام ہوتا رہا حتیٰ کہ اس کے اعلان کی بھی ضرورت کبھی نہیں پڑی کیونکہ مشک آنست کہ خود پیوند نہ کہ عطار بگوید۔ آپ اگلے دن ایک اخبار سے گفتگو کررہے تھے۔ افواہیں اور اندازے جہاں پرویز مشرف کے بارے میں نت نئے اندازے لگائے جارہے اور دعوے کیے جارہے ہیں کہ اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں ہوگا وہاں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جس انداز میں نیب والوں کو للکار رہے ہیں اس سے بھی کچھ لوگ یہی نتیجہ اخذ کررہے ہیں کہ اس معاملے میں بھی کم ازکم بہت جلد ، کچھ نہیں ہوگا جبکہ توقیر صادق نے انہیں اوگرا سکینڈل میں باقاعدہ ملوث کرنا شروع کردیا ہے۔ موصوف سینیٹر جہانگیربدر کے برادر نسبتی بتائے جاتے ہیں جبکہ کسی زمانے میں جہانگیر بدر اور میاں برادران کا کاروبار مشترکہ رہا ہے جس کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس چشم پوشی یا تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ گیلانی، پیر پگاڑا اور حجرہ شاہ مقیم کے بخاری خاندان کے مابین قریبی رشتہ داریاں ہیں اور وہ ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں جبکہ اول الذکر دونوں خاندان اس وقت ن لیگ کے ساتھ ہیں نیز درپردہ گیلانی بھی ن لیگ ہی کے سایۂ عاطفت میں آچکے ہیں اور اسی لیے یہ کہا جارہا ہے کہ ان مجبوریوں کی بنا پر گیلانی کے خلاف نیب کو حکومت کی طرف سے ’’گوسلو‘‘ کا اشارہ دے دیا گیا ہے جبکہ پچھلے دنوں یہ افواہ بھی عام تھی کہ گیلانی ن لیگ میں شامل ہورہے ہیں اور یہ رسمی اعلان کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ ’’اسالیب ‘‘ کے دوخصوصی شمارے ادبی جرائد میں بہت جلد اپنا مقام بنالینے والا سہ ماہی ’’اسالیب‘‘ کراچی سے عنبرین حسیب عنبر نکالتی ہیں جو شاعر، نقاد، معلم اور ہمارے دوست پروفیسر سحرانصاری کی صاحبزادی اور خودبھی شاعرہ ہیں۔ پچھلے دنوں اس کا سالنامہ دوجلدوں میں شائع کیا گیا ہے۔ ان کی ایک خصوصیت اور خوبی یہ بھی ہے کہ دونوں حصے ضخیم اور مجلد ہیں اور اس طرح انہیں باقاعدہ دستاویزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے جبکہ یہ امتیاز بہت کم جرائد کو حاصل ہے۔ اس کی ایک مثال کراچی ہی میں شائع ہونے والے سہ ماہی ’’زیست‘‘ کی ہے جس نے منٹو صدی کے حوالے سے ایک مجلد شمارہ شائع کیا، اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب ادبی پرچوں پر زیادہ خرچہ کرنے کا خطرہ بھی مول لیا جانے لگا ہے جو ادب کے لیے بہرحال ایک نیک فال ہے اور قارئین ادب کے لیے ایک باقاعدہ خوشخبری۔ ساڑھے چھ سو سے زائدضخامت پر مشتمل اور عمدہ سفید کاغذ پر چھپنے والے پہلے شمارے میں میرؔ وغالبؔ پر ایک خصوصی گوشہ قائم کیا گیا ہے جو 8مضامین پر مشتمل ہے اور جس میں ڈاکٹر اسلم انصاری، پروفیسر سحر انصاری، سید مظہرجمیل ، پرتوروہیلہ ، زبیر رضوی اور دیگران نے حصہ لیا ہے جبکہ شعبہ مضامین میں سحرانصاری، رضاعلی عابدی، محمد سہیل عمر اور ڈاکٹر ناصر عباس کے ہمراہ دیگر معروف ادیب شامل ہیں۔ مدیرہ نے انتظار حسین اور شمیم حنفی سے گفتگو کی ہے جو خاصے کی چیز ہے۔ ایک اور عنوان کے تحت پروفیسر گوپی چند نارنگ ، ڈاکٹر معین الدین عقیل اور ڈاکٹر ضیاء الحسن ودیگران کی نگارشات ہیں جبکہ خصوصی گوشہ کے تحت بھی اہم مضامین شامل ہیں اور ادباء کی تصاویر بھی۔ یہ غالباً پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی رسالہ دوضخیم شماروں میں شائع کیا گیا ہو اور اس تاریخی کارنامے پر مدیرہ بجاطورپر مبارک باد کی مستحق ہیں، کم وبیش اسی ضخامت کی اس کی دوسری جلد میں افسانے، سفرنامہ اور ڈھیر ساری شاعری ہے، اس کے علاوہ تراجم کا ایک وسیع اور دقیع سلسلہ ہے اور فلم، ٹی وی ، موسیقی اور اداکاری پر مفید مضامین ، رضیہ فصیح احمد کے مطالعے کے لیے ایک الگ حصہ مخصوص کیا گیا ہے جبکہ خصوصی مطالعہ میں پروفیسر سحرانصاری نے احفاظ الرحمن اور صابروسیم کی شاعری کا جائزہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ کتابوں پر تبصرہ ہے اور بعض شامل ادیبوں کے خطوط۔ پہلے شمارے کا اداریہ سحرانصاری نے سپردقلم کیا ہے جو اس پرچے کے سرپرست بھی ہیں جبکہ دوسرے حصے کا اداریہ خودمدیرہ کی تحریر پر مشتمل ہے۔ دونوں شماروں کا آغاز حمد ونعت سے کیا گیا ہے اور دوہزار روپے میںیہ دونوں شمارے دستیاب ہیں جبکہ انداز پیشکش میں انہیں باقاعدہ کتابوں کی شکل دے دی گئی ہے۔ قیمتی کاغذ اور مضبوط جلد کی وجہ سے یہ نسبتاً زیادہ دیر محفوظ بھی رہ سکتے ہیں۔ آج کا مطلع بھیک مطلوب ہے جس کو نہ صدا کرتا ہے اک گدا شہر میں ایسا بھی پھرا کرتا ہے