ہمارے ممدوح عمران خان عدلیہ کو نیچا بھی دکھانا چاہتے ہیں اور عدلیہ کی آزادی کا جھنڈا بھی اٹھا رکھا ہے۔ شرمناک لفظ کے ایک بڑی گالی ہونے کو باور کرتے ہوئے بھی وہ یہ گالی دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال غالباً یہ بھی ہے کہ ان کے جملہ فرمودات کے باوجود سپریم کورٹ ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتی کیونکہ وہ ایک بڑے لیڈر ہیں اور عدلیہ یہ بات تسلیم بھی کرچکی ہے۔ ان کا خیال یہ بھی ہوگا کہ سزایاب ہونے کی صورت میں وہ عدلیہ کے خلاف ایک بہت بڑی تحریک چلانے اور زیادہ بڑے لیڈر بننے میں کامیاب ہوجائیں گے اور اس میں انہیں پیپلزپارٹی والوں کی تائید اور کمک بھی حاصل ہوگی۔ اور اگر ایسا ہی ہے تو کیا عمران خان وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے بڑے لیڈر ہیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار اللہ میاں سے فرمائش کی کہ یہ یہودی دن رات انہیں برا بھلا کہتے رہتے ہیں، ان کی زبانیں بند کردیجیے ۔ اللہ میاں نے جواب دیا کہ یہ ہروقت مجھے بھی برا بھلا کہتے رہتے ہیں، اگر میں نے اپنی خاطر ان کی زبانیں بند نہیں کیں تو تمہاری خاطر کیوں کروں گا۔ سو پیپلزپارٹی جو اس وقت حکومت میں تھی، اگرعدلیہ کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلا سکی تو عمران خان کے لیے کیوں چلائے گی۔ البتہ اس حدتک ضرور ہے کہ وہ ایک تیر سے دوشکار کرنے کی کوشش کرے گی کہ اس طرح عدلیہ کو پریشان کردے اور عمران خان کا کڑا کا بھی نکال دے جس نے ان دو بڑی پارٹیوں کو ڈسٹرب کرتے ہوئے اپنا توت کھڑا کردیا ہے اور ان کی ’’باریوں ‘‘ کو متاثر کرنے کی جسارت کی ہے۔ چنانچہ اب اس دعوے کی تکرار سے کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے اور اپنے الفاظ واپس نہیں لیں گے ، انہوں نے اپنے خلاف لگے ہوئے شکنجے کو مزید کس لیا ہے کہ اب وہ معافی مانگ کر ’نکّو‘ بننا افورڈ ہی نہیں کرسکتے جبکہ سپریم کورٹ کا یہ ریمارک غور طلب ہے کہ آپ اپنا تفصیلی بیان داخل کریں، اس کے بعد دیکھیں گے کہ شرمندہ کون ہوتا ہے! عمران خان کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ وہ فرنٹ نٹ پر کھیلنے کے شوقین اور عادی ہیں لیکن سیاست میں آپ ہر بال پر چوکا چھکا نہیں لگا سکتے اور میدان سیاست میں کوئی بڑی چھلانگ بھی لگانی ہوتو دس قدم پیچھے سے دوڑ کر آنا پڑتا ہے۔ سیاست صبر اور انتظار کا کھیل ہے لیکن ہمارے یہ دوست صبر کرنے کے عادی ہیں نہ انتظار کرنے کے۔ اس لیے ان کے حق میں دعا ہی کی جاسکتی ہے اور یہ دعا ہی کا مقام بھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے اس حقیقت کو بڑی سہولت سے فراموش کررکھا ہے کہ سٹیٹس کو، کی قوتیں ان سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں اور اس کا کچھ اندازہ انہیں حالیہ انتخابات اور ان کے نتائج سے ہو بھی گیا ہوگا۔ چنانچہ وہ جو انتہائی خاموشی اور اطمینان سے چلتے ہوئے اس انتظام میں آکودے ہیں اس کے ردعمل کا صحیح اندازہ شاید وہ نہیں لگاسکے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی عدلیہ کے خلاف چلائی جانے والی کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ خاص طورپر اس عدلیہ کے خلاف جس کے کریڈٹ پر لاپتہ افراد کی بازیابی ، کرپٹ عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کرنے، لوٹی ہوئی دولت کو واپس سرکاری خزانے میں جمع کروانے اور ستم رسیدگان کی آوازپر سووموٹو ایکشن لینے جیسے کارنامے موجود ہوں۔ چنانچہ ان کمالات کی وجہ سے جہاں پوری قوم سپریم کورٹ کی پشت پر کھڑی ہو، اس کے خلاف عوام تو تحریک چلانے سے رہے، ہاں اگر عمران خان اس کے لیے فرشتوں کا انتظام کرسکتے ہوں تو اور بات ہے۔ اگرچہ اس ماحول میں پیپلزپارٹی والوں کا قارورہ تحریک انصاف کے ساتھ مل بھی چکا ہو جیسا کہ آخرالذکر کے بیانات اور چودھری اعتزاز احسن کے عمران خان کو وکالت کی پیشکش کرنے سے ظاہر ہوتا ہے، تو بھی اس سلسلے میں کوئی خاص فتور پیداکرلینا ان دونوں کے بس کی بات نہیں ہے جبکہ پیپلزپارٹی عوام میں اپنے اثرورسوخ کا کافی حدتک اندازہ پہلے ہی لگا چکی ہے۔ وہ شامل باجے کی حیثیت سے تحریک انصاف کی موسیقی میں تھوڑا بہت اضافہ تو کرسکتی ہے لیکن اسے نتیجہ خیز نہیں بنا سکتی اور نہ ہی وہ اندر سے ایسا چاہتی ہوگی کیونکہ موجودہ فضا میں جبکہ صدر زرداری کا استثنیٰ بھی خاتمے کے قریب ہے اور ان کے خلاف دیگر مقدمات کے کھلنے کے خبریں بھی آنے لگی ہیں، پیپلزپارٹی عدلیہ کے ساتھ کوئی پنگا کرنے سے پہلے کئی سوبار ضرور سوچے گی۔ عمران خان کے جو ہم سفر انہیں اپنے الفاظ واپس نہ لینے اور ڈٹے رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں درحقیقت وہ عمران خان کی سیاسی قبر کھودنے کے درپے ہیں اور غیرشعوری طورپر ہی سہی وہ عمران خان کا بھلا نہیں کررہے جبکہ غیرمشروط معافی کی شق رکھی ہی اس لیے گئی ہے کہ ہردوفریق اکامو ڈیٹ ہوجائیں ورنہ توہین عدالت کرنے والا بھی اپنے جرم کو سمجھتا ہے اور عدالت بھی جس کے خلاف توہین کا ارتکاب کیا گیا ہو، چنانچہ مصالحت کا یہ ایک طریق کار ہے جو خوب سوچ سمجھ کر طے کیا گیا ہے اور موجودہ حالات میں جبکہ سپریم کورٹ جتنی یک سو اور مضبوط ہے، پہلے کبھی نہیں تھی اور کوئی بھی سیاستدان خواہ مخواہ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا افورڈ نہیں کرسکتا اور نہ اس طرح اپنے پیروکاروں کو مایوسی کے غار میں دھکیل سکتا ہے۔ اس لیے ایسے حالات میں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت سے عدلیہ کو بلیک میل کرسکتا ہے تو وہ سخت غلطی پر ہوگا۔ سیاسی فائدہ اٹھانا اور اپنے قدکاٹھ میں اضافہ کرنا ہرسیاسی لیڈر کا حق ہے، لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے، اس میدان میں جذباتیت سے کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ سیاست تو ہنر ہی ناممکنات کا ہے اور اگر اس کے لیے خصوصی ذہانت اور دوراندیشی درکار نہ ہوتو ہرایرا غیرا سیاستدان بن کے دکھا سکتا ہے۔ نیز، ظاہر ہے کہ کسی سیاستدان کو باہر سے کوئی مشورہ نہیں دیا جاسکتا، نہ ہی وہ ایسا کوئی مشورہ قبول کرتا ہے بلکہ اس کے پیرو کار اور قریبی ساتھی ہی اسے مشورہ دینے کا حق رکھتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کے چیدہ چیدہ ساتھی انہیں آخری مشورہ کیا دیتے ہیں ! ع دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا آج کا مطلع رونا جو ہے جڑا ہوا گانے کے ساتھ ساتھ یوں ہم بھی چل رہے ہیں زمانے کے ساتھ ساتھ