14اگست سے ایک دن پہلے جب صدارتی ایوارڈز کا اعلان ہونا تھا، اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ پنجاب سے امیدواروں کی جو فہرست بھجوائی گئی تھی اور جس میں اسلم کمال، ڈاکٹر یونس جاوید، ڈاکٹر صغریٰ صدف، صوفیہ بیدار اور دیگران کے نام شامل تھے، انہیں ایوارڈ ملنے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ متعلقہ اجلاس میں سیکرٹری ثقافت پنجاب کو شامل نہیں کیا گیا تھا اور اگر ان افراد کو ایوارڈ نہ دیا گیا تو وہ سخت احتجاج کریں گے اور تحریک چلائیں گے۔ بہرحال ان میں سے صرف ڈاکٹر یونس جاوید کو ایوارڈ ملا ہے۔ ماضی میں جب حسن رضوی کے لیے تمغہ حسن کارکردگی کا اعلان کیا گیا تو قتیل شفائی اور شہزاد احمد نے سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا تھا اور ادیبوں کے دستخطوں کی ایک مہم چلائی تھی جس میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ حسن رضوی ، چونکہ ان سے بہت جونیئر تھے، ان کا ایوارڈ منسوخ کرکے وہ انہیں دیا جائے۔ ایسا تو نہ ہوا، تاہم اس کا نتیجہ یہ ضرور نکلا کہ اگلے سال ان حضرات کو بھی ایوارڈ سے نوازدیا گیا اور اس طرح سے حق بحق دار رسید پر عمل درآمد ہوپایا۔ ان سب کو ایوارڈ ملنا چاہیے تھا جبکہ اسلم کمال تو ان میں بہت سینئر اور باکمال آدمی تھے۔ بہرحال، انہیں اب بھی اکا موڈیٹ کیا جاسکتا ہے کیونکہ 14اگست کی اس سلسلے میں کوئی قید نہیں ہے۔ اصولی طورپر ، جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے، صوبائی سیکرٹری ثقافت کو بھی اس مشاورت میں شامل کرنا چاہیے تھا، بلکہ میرے خیال میں تو ہرصوبے کے گورنر اور وزیراعلیٰ کو بھی اس سلسلے میں اعتماد میں لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ جو زیادہ عجیب بات نظر آئی ہے وہ یہ رہی کہ اس فہرست میں غالباً کراچی سے کسی دوست کا نام شامل نہیں ہے جس سے یہ فہرست غیرمتوازن ہوکر رہ گئی ہے اور یہ بات تو سوچی ہی نہیں جاسکتی کہ کراچی میں کوئی بھی اس ایوارڈ کا اہل موجود نہ ہو جبکہ انور شعور ،فاطمہ حسن اور سحرانصاری سے لے کر آصف فرخی اور مبین مرزا بیگ ، بے شمار لوگ شعبۂ ادب ہی میں موجود ہیں جو اپنے اپنے کام اور میدان میں بہترین خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اندر کی کہانی یہی لگتی ہے کہ ایوارڈ کے سلسلے میں مختلف لابیز برسرکار ہیںجو ایوارڈز دینے دلانے میں پیش پیش رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ میرے جیسوں کو شاید غلطی سے بھی ایوارڈمل جاتا ہے کیونکہ میری تو کوئی لابی ہی نہیں ہے۔ مجھے پرائڈ آف پرفارمنس بھی اسی طرح ملا تھا ۔ نذیر ناجی اکادمی ادبیات کے چیئرمین تھے، ایک دن ان کا فون آیا کہ ہم نے آپ کا نام ایوارڈ کے لیے فائنل کرکے بھیج دیا ہے، تاہم اس میں حرف آخر وفاقی وزیرراجہ ظفرالحق ہیں، اگر آپ انہیں کہہ یا کہلا سکتے ہوں تو بات بن جائے گی۔ میں نے کہا کہ آپ کے ساتھ میرا پرانا تعلق ہے، میں نے اگر آپ سے نہیں کہا تو راجہ صاحب سے کیا کہوں گا ۔ تاہم نذیر ناجی نے ایک کفران نعمت یہ کیا کہ خود اتنا عرصہ چیئرمین رہے اور اپنے لیے کوئی ایوارڈ حاصل نہ کیا جبکہ ہمارے دوست افتخار عارف نے اپنے دور میں دوسروں کو وہی ایوارڈ دیا جو ان سے بچ رہا۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ آپ کا اصل ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس یا ہلال امتیاز نہیں بلکہ آپ کا کام ہے ، اور ، اگر وہ نہیں تو باقی ساری کہانیاں ہیں۔ بہرحال، تہنیت گزاروں میں سب سے مزیداربات آفتاب اقبال کی تھی کہ آخر آپ باپ کس کے ہیں! اور، یہ بھی کہ اب تو نشان حیدر (بعدازمرگ ایوارڈ) ہی رہ گیا ہے ع ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے باقی دوستوں نے محبت میں بہت کچھ کہا۔ پروفیسر ڈاکٹر ضیاالحسن نے کہا کہ اکادمی نے یہ ایوارڈ آپ کو دے کر اس ایوارڈ کی عزت میں اضافہ کیا ہے۔ عمران نقوی نے کہا کہ آپ کا لفظ زندہ ہے۔ اسی طرح اصغر ندیم سید، عطا الحق قاسمی، قاضی جاوید اور دیگران نے بھی خاصے مبالغے سے کام لیا۔ جن دوستوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے مبارکباد کی زحمت اٹھائی ان سب کا بہت بہت شکریہ۔ حق بات تو یہ ہے کہ جو لوگ پہلے ہی شیطان کی طرح مشہور ہیں یہ ایوارڈز ان کی نہیں بلکہ ان نوجوانوں کی زیادہ ضرورت ہیں جو جینوئن ہیں اور جن کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ۔ چنانچہ جن لوگوں کو ایوارڈ نہیں ملا اور جو لاہور سے جانے والی فہرست میں شامل تھے، ان کے نام چونکہ میرے علم میں آچکے تھے، میں ان سے باقاعدہ شرمندہ ہوں کہ خودایوارڈ لے کر بیٹھ گیا ہوں، چنانچہ اگر میرا ایوارڈ واپس لے کر ان میں تقسیم کردیا جائے اور اس طرح انہیں اکاموڈیٹ کردیا جائے تو مجھے ہرگز کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اور اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو انہیں اگلے سال کے لیے ضرور رکھ لیا جائے۔ بہرحال جملہ ایوارڈ یافتگان کو میری طرف سے دلی مبارکباد کہ یہ اعزاز ملک اور مملکت کی طرف سے ہے ! آصف ثاقب آصف ثاقب کا شمار ہمارے سینئر شعراء میں ہوتا ہے اور ادبی رسائل میں ان سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ ہمیں ان کی ایک تازہ غزل دستیاب ہوئی ہے جو ماہنامہ ’’الحمرا‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ آپ کی ضیافت طبع کے لیے: بظاہر پھول جو رویا ہوا ہے وہ میرے خون سے دھویا ہوا ہے کٹے گی عمر اس کو ڈھونڈنے میں کئی صدیوں سے دل کھویا ہوا ہے یہی گارا وہاں پھولے پھلے گا زمیں تا آسماں ڈھویا ہوا ہے ابھی انگڑائی لے کر جی اٹھے گا جو فتنہ خاک میں مویا ہوا ہے بڑھی جاتی ہے اس کی اجنبیت وہ ایسے آشنا گویا ہوا ہے نہیں پھوٹا دعا کا بیج اب تک ہتھیلی میں کہیں بویا ہوا ہے چرا لو پھول اس کا بڑھ کے ثاقبؔ صنم مدہوش سا سویا ہوا ہے آج کا مطلع بظاہر صحت اچھی ہے جو بیماری زیادہ ہے اسی خاطر بڑھاپے میں ہوس کاری زیادہ ہے