صدرزرداری آئینی مدت کے بعد ملک میں ہی رہیں گے …جہانگیر بدر پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما و سینیٹر جہانگیربدر نے کہا ہے کہ ’’صدر زرداری آئینی مدت پوری ہونے کے بعد ملک میں ہی رہیں گے‘‘ کیونکہ وہ اگر کسی معاملے میں مطلوب ہوئے تو انہیں واپس بھی لایا جاسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیراعظم نواز شریف نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا جو اعلان کررکھا ہے اس کے مطابق زرداری بھی انہی سب میں شامل ہیں ورنہ وہ کہہ دیتے کہ زرداری کے سوا سب کو ساتھ لے کر چلیں گے، نیز موجودہ حکومت بھی چونکہ مفاہمت کی علمبردار ہے، اس لیے اس نکتے پر بھی دونوں فریقوں میں معاملات طے ہوچکے ہیں کہ نہ ہم آپ کو پوچھیں گے اور نہ اپنی باری آنے پر آپ ہمیں ، کیونکہ عوام کی بہتر خدمت اسی انداز میں ہوسکتی ہے جواول اول خود حکومتی عہدیداروں سے شروع ہوتی ہے اور جب عوام کی باری آنے لگتی ہے تو حکومت کی میعاد ہی ختم ہوجاتی ہے، اور، عوام اسے رضا ئے الٰہی سمجھ کر خاموش ہی رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز اوکاڑہ میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ عمران خان مغرب کا ایجنڈا نافذ کرنا چاہتے ہیں …فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’عمران خان مغرب کا ایجنڈا نافذ کرنا چاہتے ہیں ‘‘ جبکہ ہم اس کی بجائے اپنے ذاتی ایجنڈے پر ہی یقین رکھتے ہیں اور ہرحکومت میں ہم اسی پر عمل پیرا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اسی میں اتنی برکت ڈالی ہے اور ہر شے کی فراوانی عطا کردی ہے کہ عمران خان بھی حسد کی آگ میں جل کر یہ کہتے ہیں کہ مولانا اپنے ذرائع آمدن بتائیں جن کے بل بوتے وہ عیاشانہ زندگی بسر کررہے ہیں حالانکہ میں اور میرا سیاسی کاروبار ماشاء اللہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہے جسے عمران خان غالباً پڑھنے سے قاصر ہیں، حتیٰ کہ پچھلے دنوں میرے حصے کے جو پچاس کروڑ ہضم کر لیے گئے تھے، خاکسار کی مالیات پر اس کا بھی کوئی خاص اثر نہیں پڑا تھا کیونکہ ہم متوکل لوگ ہیں اور ماضی کی بجائے مستقبل پر نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’عمران خان سیاست کے ادنیٰ طالب علم ہیں لیکن خود کو ماسٹر سمجھتے ہیں‘‘ لیکن اگر وہ مجھ سے ایک آدھ سبق ہی پڑھ لیں تو اس مضمون میں طاق ہوسکتے ہیں۔ آپ اگلے روز چارسدہ میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ طالبان سے مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں …عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’طالبان سے مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ‘‘ اگرچہ طالبان نے اپنے ساتھ حکومت کے کسی بھی رابطے سے انکار کردیا ہے اور سیکرٹری دفاع نے بھی کہہ دیا ہے کہ مذاکرات کرنے والوں کو اگر یہی معلوم نہیں کہ مذاکرات کیا، اور ، کس کے ساتھ کرنا ہیں، تو اس سلسلے میں خوش فہمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی؛ تاہم حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کہنا پڑتا ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’فوجی آپریشن آخری آپشن ہونا چاہیے ‘‘ اور، حالات جس رخ پر جارہے ہیں ان کے پیش نظر تو آخری آپشن ہی باقی رہ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مذاکرات سے قبل ڈرون حملوں کو بند کرایا جائے‘‘ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نہ ڈرون حملے بند ہوں نہ مذاکرات کا آغاز ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا بہت نقصان ہوچکا ہے ‘‘ اور یہ انکشاف کرنے پر خاکسار خصوصی داد کا مستحق ہے۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کررہے تھے ۔ آئینی رکاوٹ نہ ہوئی تو دسمبر میں بلدیاتی انتخاب کرادیں گے …رانا ثناء اللہ صوبائی وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ’’اگر آئین میں رکاوٹ نہ ہوئی تو دسمبر میں بلدیاتی انتخاب کرادیں گے‘‘ جبکہ کسی نہ کسی آئینی رکاوٹ کے لیے زمین ہموار کی جارہی ہے کیونکہ بلدیاتی انتخاب کا مطلب معزز ارکان اسمبلی کے اختیارات بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کرنا ہوں گے اور ان معززین کو تربوز لگانے پر مجبور کرنا ہوگا؛ جبکہ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں بھی یہ کام نہیں کیا جاسکا‘ جس سے ارکان اسمبلی کے بددل ہونے کا خدشہ ہے اور عام انتخابات پر ان کا کروڑوں کا خرچہ بالکل بیکار چلا جائے گا کیونکہ بدلی ہوئی صورت حال میں اس کی واپسی کا کوئی امکان بھی باقی نہیں رہ جائے گا اور آئندہ کوئی شریف آدمی عام انتخابات کا رخ ہی نہیں کرے گا کیونکہ یہ محض گناہ بے لذت ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ’’پی پی پی اور پی ٹی آئی کا براحشر ہوا‘‘ جس کے لیے ہم فرشتوں کے بطورخاص شکرگزار ہیں جنہوں نے الیکشن کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ ہمیں غیبی امداد مل کر ہی رہے گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ مفید مشورہ جہاں طالبان کے ساتھ حکومت کے مذاکرات شروع ہونے کی خبریں آرہی ہیں، وہیں طالبان کی طرف سے ان سے لاعلمی کا اظہار بھی کیا جارہا ہے اور انہوں نے کہہ دیا ہے کہ پہلے ہم اپنی شرائط اور ایجنڈا حکومت کے سامنے رکھیں گے اس کے بعد حکومت چاہے تو ہم سے مذاکرات کرسکتی ہے اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ طالبان حضرات آئین پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں نہ بچیوں کے حصول تعلیم کے حق کو۔ جبکہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے شرط اول یہی ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے مطالبات میں لچک کا مظاہرہ کریں جبکہ آئین سے متعلقہ معاملہ کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے کیونکہ ملک عزیز میں آئین پر پہلے کون سا عمل ہورہا ہے، اس لیے اس سلسلے میں طالبان کو حکومت خاصی حدتک اکاموڈیٹ کرسکتی ہے اور جہاں تک بچیوں کے حصول علم کا تعلق ہے تو اس ضمن میں بھی کوئی درمیانی راہ نکالی جاسکتی ہے، مثلاً جو بچیاں تعلیم حاصل کرنے پر مصر ہوں وہ ملالہ کی طرح بیرون ملک چلی جائیں، وغیرہ وغیرہ …! آج کا مقطع سرسرا کر کیوں فضا میں جم نہیں جاتا ،ظفرؔ ڈور قائم ہے تو پھر کیوں ڈولتا پھرتا ہوں میں