عوام حکمرانوں کے جانے کی دعائیں مانگ رہے ہیں: عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’عوام حکمرانوں کے جانے کی دعائیں مانگ رہے ہیں‘‘ اور جس کا صاف مطلب ہے کہ وہ میرے آنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں، اگرچہ انہوں نے حالیہ انتخابات کے موقع پر بھی میرے لیے بہت دعائیں مانگی تھیں لیکن خطا کار ہونے کی وجہ سے وہ دعائیں قبول نہ ہوسکیں جبکہ اب انہوں نے اللہ میاں سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگ لی ہے۔ اس لیے ان کی دعائوں کے قبول ہونے کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک میں کسی کی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں‘‘ جوانشاء اللہ میرے آتے ہی محفوظ ہوجائے گی، بے شک آزما کر دیکھ لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ’’ رہی سہی کسر مہنگائی، کرپشن اور بے روزگاری نے نکال دی ہے‘‘ اور اس کے علاوہ جو کسر رہ گئی وہ انشا اللہ میں نکال دوں گا کیونکہ ملک عزیز میں جو حکمران بھی آتا ہے، رہی سہی کسر نکالنے کے لیے ہی آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکمرانوں نے 100 دنوں میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا‘‘ جبکہ میں اگر ہوتا تو اس کے علاوہ بھی کچھ نہ کچھ ضرور دیتا۔ آپ اگلے روز پسرور میں پارٹی عہدیداروں سے گفتگو کررہے تھے۔ امن کوششوں کو آگے بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے: فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’امن کی کوششوں کو آگے بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے‘‘ جبکہ خاکسارکی ترجیحات پر عملدرآمد کو آگے بڑھانا اس سے بھی بڑی ضرورت ہے کیونکہ امن کی کوششیں تو آگے بڑھتی نظر نہیں آتیں۔ اس لیے ان پر وقت ضائع کرنے کی بجائے سارے معاملات پر توجہ دینا کہیںآسان ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت آسان راستوں کو چھوڑ کر خواہ مخواہ مشکل اور سنگلاخ راستوں پر چلنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’خفیہ سازشوں پر سب کو نظر رکھنی ہوگی‘‘ کیونکہ نظر رکھنے سے ہی وہ ناکام ہو کر ختم ہوجائیں گے جس طرح ہماری وزارتوں کے خلاف سازشوں پر ہمارے نظر رکھنے سے وہ رفع دفع ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’’ دیر بالا کا واقعہ افسوسناک ہے‘‘ تاہم موجودہ حالات میں اسے محض افسوسناک ہی کہا جاسکتا ہے اور اس کی مذمت کرکے دہشت گرد حضرات کی ناراضی مول نہیں لی جاسکتی جو مذاکرات کے سلسلے میں پہلے ہی شرطیں عائد کرکے نخرے دکھا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی رہنمائوں مولانا عبدالغفور اور مولانا امجد خان وغیرہ سے ملاقات کررہے تھے۔ پاکستان اقتصادی ترقی کے لیے ترکی کے تعاون کا خیر مقدم کرے گا: پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ’’پاکستان ترکی کے تعاون برائے اقتصادی ترقی کا خیر مقدم کرے گا‘‘ اور یہ بھی ہم نے بڑے تحفظات کے ساتھ منظور کیا ہے ورنہ اقتصادی ترقی کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں جو راولپنڈی اور فیصل آباد میں بھی میٹرو بس چلا کر دکھا دیں گے اور جہاں تک ہسپتالوں اور سکولوں وغیرہ کا تعلق ہے تو وہ سارے معاملات جو عوام سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں ہم نے اللہ میاں پر چھوڑ رکھے ہیں کیونکہ سب سے بڑا کارساز وہی ہے۔ ہم خطا کار لوگوں کی کیا حیثیت ہے جن کی خطا کاریوں میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان اور ترکی کے درمیان مثالی تعلقات ہیں‘‘ چنانچہ دوسرے ملکوں کو بھی ہماری مدد کرنی چاہیے تاکہ ان کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات مثالی ہوسکیں۔ انہوں نے کہاکہ ’’دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کی کئی یادداشتوں پر دستخط ہوجائیں گے‘‘ جبکہ ویسے بھی ہم سابق صدر آصف علی زرداری کے فلسفۂ مفاہمت پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک بیان جاری کررہے تھے۔ حکومتی ایجنڈا نیا آرمی چیف اور چیف جسٹس آنے کے بعد واضح ہو گا: شیخ رشید عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ’’حکومتی ایجنڈا نیا آرمی چیف اور چیف جسٹس آنے کے بعد واضح ہو گا‘‘ لیکن اگر میاں صاحب مجھے اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیتے تو ان دو حضرات کے آنے کا انتظار کیے بغیر ہی وہ اپنا ایجنڈا بڑی آسانی سے جاری کرسکتے تھے جبکہ فی الحال تو میں عمران خان کا ایجنڈا تیار کرنے میں لگا ہوں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’جمہوریت فتح مند ہے تواس کی حالت ابتر کیوں ہے۔‘‘ جیسے کہ الیکشن میں بالآخر کامیاب ہو کر میری حالت ابتر ہوتی جارہی ہے اور کوئی اس طرف توجہ ہی نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا ’’کسی بھی وقت حادثہ ہوسکتا ہے‘‘ اور میرے علاوہ بھی کئی حضرات ایسے کسی حادثے پر امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’90ء کی ٹیم مسائل حل نہیں کر سکتی‘‘ اور حکومت کو اسی سابق ٹیم کو بروئے کار لانا چاہیے جس میں خاکسار بھی کابینہ کا رکن ہوا کرتا تھا‘ آزمائش شرط ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں دنیا نیوز اور روزنامہ ’’دنیا‘‘ کو انٹرویو دے رہے تھے۔ ’’سامعہ‘‘ غزلوں اور نثری نظموں پر مشتمل مجموعہ ہے جسے ناصر ملک نے لکھا ہے۔ سامعہ ان کی محبوبہ کا نام بھی ہے۔ اس لیے ان کی ہر نظم لفظ سامعہ! سے شروع ہوتی ہے جبکہ غزلوں میں بھی وہ اُسے یاد رکھتے ہیں۔ کچھ شعر دیکھیے: سامعہ! لازم نہیں ہے تم مجھے سنتی رہو میں تو مجبوری سمجھ کے بولتا ہوں‘ کیا کروں بے سبب روٹھتی ہے اب مجھ سے سامعہ! دشمنی ہے اب مجھ سے؟ سامعہ! زندگی ایک ہی سانس ہے اور ہے مختصر اور‘ یہ پھول بھی سانس ہے‘ مسکرا کر اسے تھام لو دل کی نادانیاں نہیں لکھتے سامعہ! سوگوار دل بھی ہے کیوں مری سامعہ کی آنکھوں میں خواہشِ ناتمام ہوتی ہے تجھے تو سامعہ! آنسو بہانے کی اجازت ہے سسکتی رات کا قصہ سنانے کی اجازت ہے تری تابندگی میں سامعہ! نگہت دھڑکتی ہے تری قسمت کشا آنکھوں سے مے اب بھی چھلکتی ہے مقدر سامعہ! ہم سے کبھی برہم نہیں تھا نا! حیاتِ بے خبر میں سوختہ موسم نہیں تھا نا! سامعہ! مسکرا کر اسے ٹال دو مجھ سیہ بخت کی تیرگی ہے ابھی مدتوں کچھ نہیں لکھا میں نے سامعہ اک ذرا بچھڑ جائو شاعر ساتھ ساتھ محبوبہ کی تصویر بھی چھاپ دیتا تو یہ تعارف مکمل ہو جاتا! آج کا مطلع تھا اندھیرا بہت جلایا ژونگ اُس کے آتے ہی پھر بجھایا ژونگ (’’ژونگ‘‘ کشمیری زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں چراغ)