پیارے بھوتو! ہم نے کچھ عرصہ پہلے جنّات کا صفحہ چھاپا تو آپ کی طرف سے مسلسل یہ شکایات موصول ہورہی تھیں کہ آپ جو جنّوں سے یکسر مختلف مخلوق ہیں، تو آپ کی حق تلفی کیوں کی گئی ہے جبکہ آپ کے اندر کئی پڑھے لکھے بھوت بھی موجود ہیں جو نہ صرف یہ کہ خود اخبار پڑھ سکتے ہیں، بلکہ ناخواندہ بھوتوں کو پڑھ کر سنا بھی سکتے ہیں۔ ہمیں آپ کی دل سوزی کا پورا پورا احساس ہے کیونکہ آپ حضرات واقعی جنات سے مختلف ہیں اور جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ بعض افراد کے اندر جن داخل ہونے کی تو اطلاعات ملتی رہتی ہیں جنہیں نکلوانے کے لیے عامل بابائوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور جو کسی خوش شکل مریضہ کو لے کر فرار ہوتے بھی بیان کیے جاتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں سنا کہ فلاں کو بھوت چمٹ گیا ہے۔ چنانچہ جائز اور مناسب حق رسی کے طور پر اس صفحے کا اجرا کیا جارہا ہے جو نہ صرف آپ کے لیے ہے بلکہ دیگر ہر قسم کے چھلائوں، چھلیئوں، چڑیلوں، ڈائنوں، پچھل پائیوں اور ہوائی چیزوں کے استفادے کے لیے بھی ہے، مبادا وہ کل کو اپنے صفحے کا مطالبہ کردیں۔ امید ہے کہ آپ کو یہ صفحہ پسند آئے گا اور حق بہ حق دار رسید کی مثال ثابت ہوگا۔ اس سلسلے میں آپ کی قیمتی رائے کا انتظار رہے گا کہ ہماری یہ کاوش آپ کو کیسی لگی ہے۔ سبق آموز واقعات ٭دنیا کی پہلی مختصر کہانی کے مطابق دو شخص کہیں اکٹھے ہوئے تو ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ تم نے کبھی بھوت دیکھا ہے؟ دوسرے نے نفی میں جواب دیا تو پہلا نظروں سے غائب ہوگیا! اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر آپ کی کسی اجنبی سے کبھی مڈبھیڑ ہو تو پہلے اچھی طرح سے تسلی کرلیں کہ وہ کہیں بھوت تو نہیں؟ اور اگر کوئی آپ سے ایسا سوال کرے کہ کیا آپ نے کبھی بھوت دیکھا ہے تو اسے کہیں کہ ہاں دیکھا ہے تو وہ خود ہی کھسیانا ہو کر رہ جائے گا اور آپ کو حیران کرنے کے لیے غائب ہونے کا تکلف ہی نہیں کر ے گا۔ ٭ایک بھوت کسی خوبصورت بھتنی پر عاشق ہوگیا اور اسے پروپوز کر بیٹھا۔ بھتنی نے کہا، پہلے تم مجھے یہ بتائو کہ تم لاتوں کے بھوت ہو یا باتوں کے؟ بھوت نے کہا، بی بی، میں تو صرف بھوت ہوں، جس پر بھتنی نے اس سے شادی سے انکار کردیا۔ دراصل بھوت خاصا بدصورت تھا اور اوپر سے بھوت بھی، چنانچہ بھتنی کی سکیم یہ تھی کہ اگر وہ کہے کہ میں باتوں کا بھوت ہوں تو وہ یہ کہہ کر انکار کردے گی کہ میں تو کسی لاتوں کے بھوت سے شادی کروں گی اور اگر وہ یہ کہے گا کہ میں لاتوں کا بھوت ہوں تو بھتنی یہ کہہ کر انکار کر دے گی کہ میں تو کسی باتوں کے بھوت سے شادی کروں گی۔ اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ پروپوز کرنے سے پہلے بھتنی سے پوچھ لیں کہ اسے باتوں کے بھوت پسند ہیں یا لاتوں کے، تاکہ آپ اسے اس کی پسند کا جواب دے سکیں؛ تاہم اگر خدانخواستہ آپ کی شکل ہی ایسی ہے تو وہ کوئی اور بہانہ بھی بنا سکتی ہے! پسندیدہ اشعار یعنی لکھ لی ہے اس طرح کی غزل ہوگیا جس طرح کا بھوت سوار غصہ پہلے ہی اس میں تھا اتنا دیکھتے ہی مجھے وہ بھوت پڑا ایڈیٹر کی ڈاک محترمی! اس خط کے ذریعے اپنے کچھ مسائل بیان کرنا چاہتا ہوں۔ شاید آپ ان کے تدارک اور حل کی کوئی صورت نکال سکیں۔ بعض ایسے محاورے وغیرہ ہیں جو انسان حضرات نے ہمارے متعلق وضع کر رکھے ہیں ہمارے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ مثلاً فلاں کے سر پر عشق کا بھوت سوار ہوگیا۔ یہ بہت زیادتی ہے۔ اول تو ہمارا کوئی وزن ہی نہیں ہوتا جس سے معلوم یا محسوس ہوسکے کہ ہم کسی کے سر پر سوار ہیں اور جس کی ہمیں چنداں ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ ہم نظر نہ آنے کی بدولت کاروں، ٹرینوں اور رکشوں وغیرہ پر بھی مفت سفر کرسکتے ہیں لہٰذا کسی کے سر پر سوار ہونا ہمارا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اکثر لوگ گنجے ہوتے ہیں اور آپ ہی بتائیں کہ کیا ہم نے کسی گنجے کے سر پر سوار ہو کر اور پھسل کر اپنی ہڈی پسلی تڑوانی ہے؟ اور تو اور ایک فلم کا نام ہی ’’بھوت بنگلہ‘‘ تھا حالانکہ ہم تو مرگھٹوں میں بڑے آرام سے رہائش پذیر ہیں اور کسی بنگلے وغیرہ کی کبھی تمنا ہی نہیں کی۔ پاکستان میں چونکہ ہندوئوں، سکھوں کی آبادی کے تناسب سے مرگھٹ ویسے ہی کم یاب ہیں اس لیے ہم ادھر ادھر پھرپھرا کر ہی گزارہ کر لیتے ہیں لہٰذا انسان حضرات کو ہمارے بارے میں غلط سلط محاورے گھڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں، ہر بدشکل عورت کو چڑیل کہا جاتا ہے۔ حالانکہ ہماری چڑیلیں خاصی قبول صورت واقع ہوئی ہیں اور یہ بھی ہمارے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے جبکہ ہم تو انسانوں کے معاملات میں ویسے ہی کبھی دخل نہیں دیتے۔ امید ہے کہ آپ اپنے اداریے کے ذریعے اس مسئلے پر ضرور قلم اٹھائیں گے، بصورت دیگر اگرچہ ہم آپ لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تاہم اپنے بزرگوں یعنی جنات کے ذریعے آپ کے لیے خاصے مسائل پیدا کرسکتے ہیں چنانچہ آپ کہاں کہاں جن نکلواتے پھریں گے۔ لہٰذا تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں اور ہمارے جذبات کو مجروح ہونے سے بچانے کے لیے جلد از جلد کوئی نکالیں۔ والسلام آپ کا مخلص، ایک حساس بھوت آج کا مطلع ہمارے چاروں طرف ہے جو آسماں تالان ہو جیسے فرشِ زمیں پر کوئی گماں تالان (تالان بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں پھیلا ہوا‘ بچھا ہوا )