(خلاصہ کتاب ہذا) اگرچہ اپنے دس سالہ دور خدمت گزاری کے دوران میں ایک تاریخی کردار پہلے ہی ادا کر چکا تھا اور مزید کسی کارگزاری کی چنداں ضرورت نہ تھی اور ویسے بھی میں بیرون ملک اپنے پرمغز لیکچروں کے ذریعے آبرومندانہ زندگی گزار رہا تھا۔ اگرچہ کبھی کبھار اس دوران مجھ پر جوتا وغیرہ پھینکنے کے افسوسناک واقعات بھی پیش آتے رہے لیکن جوتا اگر پہنا جاسکتا ہے تواس کے کئی دیگر استعمالات بھی ہوسکتے ہیں، تاہم کچھ معاملات ایسے تھے جنہوں نے مجھے واپس آنے پر مجبور کر دیا۔ سب سے پہلے تو فواد چودھری جیسے ہمدردوں نے یہ کہہ کر میرا ناک میں دم کر رکھا تھا کہ ملک کی خاموش اکثریت آپ کو کم از کم ایک بار پھر برسراقتدار دیکھنا چاہتی ہے اور اگر آپ جلد واپس تشریف نہ لائے تو ان میں سے کم و بیش آدھے لوگ مایوس ہو کر خودکشی کرلیں گے۔ میں چونکہ شروع ہی سے جمہوریت پسند آدمی ہوں اس لیے ایک بڑی اکثریت، خواہ وہ خاموش ہی کیوں نہ ہو، کی رائے کیونکر نظرانداز کرسکتا تھا۔ علاوہ ازیں، میری پارٹی اب بھی جوں کی توں موجود تھی جو مجھے وردی میں دس بار مزید صدر منتخب کرانے پر تیار تھی۔ اگرچہ کچھ شرپسند عناصر میرے خلاف سازشوں میں بھی مصروف تھے اور بعض حضرات مجھے حکومت اور عدلیہ سے بھی خوفزدہ کررہے تھے لیکن حکومت جس نے مجھے 21 توپوں کی سلامی دے کر رخصت کیا تھا‘ اس سے مجھے کیا خطرہ ہوسکتا تھا اور جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو وہ جتنے بڑے جج ہیں، اتنے ہی فراخدل بھی واقع ہوئے ہیں۔ نیز وہ یہ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں نے جو کچھ آئین کے ساتھ بے تکلفیاں روا رکھی تھیں، وہ ملکی مفاد کے عین مطابق تھیں بلکہ یہ تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ ان دس سالوں میں میرا ہر اقدام ملکی مفاد کے عین مطابق تھا۔ اس کے علاوہ سب سے زیادہ تسلی مجھے اپنے بین الاقوامی ضامن حضرات کی طرف سے تھی کہ وہ انشاء اللہ میرا بال بیکا نہ ہونے دیں گے اور جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو وہ میرے خلاف کسی بھی معاندانہ کارروائی کی ہر ممکن مخالفت کرے گی اور جملہ مخالفین کی امیدوں پر پانی پھیر دے گی۔ نیز جو میرے خلاف قتل وغیرہ کے مقدمات انتقامی طور پر قائم ہیں، ان کا بھی وہی نتیجہ نکلے گا جو ہمارے ہاں اس قسم کے مقدمات کا نکلا کرتا ہے۔ اس لیے راوی ہر طرف سے چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ تاہم‘ جہاں تک نئی حکومت کا تعلق ہے تو مجھے امید ہے کہ وہ بھی وسیع الظرفی کا مظاہرہ کرے گی کیونکہ میں ثابت کرسکتا ہوں کہ میں نے حکومت کی جو چھٹی کروائی تھی، اگر ایسا نہ کرتا تو یہ ملکی مفادات کے سخت خلاف ہوتا جبکہ مجھے سب سے زیادہ اعتراض اس بات پر تھا کہ وہ میری جگہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کررہے تھے کیونکہ بٹ حضرات اچھے خورندے تو ہوسکتے ہیں اچھے آرمی چیف ہرگز نہیں۔ علاوہ ازیں اگر میاں صاحب ذرا بھی عقل سے کام لیتے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا فوج ایسے معاملات پر کس طرح کا ردعمل ظاہر کیا کرتی ہے ! چنانچہ میری واپسی میں بظاہر کوئی امر مانع نہیں تھا اور ملکی ترقی و مفاد کا عین تقاضا تھا کہ میں اپنے ملک میں واپس پہنچ کر اس کی باقی ماندہ خدمت بھی سرانجام دوں، کیونکہ مطلع ہر طرف سے صاف نظر آرہا تھا۔ نیز امریکہ بہادر کو میرے آنے سے زیادہ خوشی کس بات کی ہوسکتی تھی جس کے ایک ایک اشارے پر میں نے کشتوں کے پشتے لگا دیے تھے، اس لیے اسے بھی میری خدمات کی ابھی مزید ضرورت ہوگی کیونکہ امریکہ کے بغیر کے بغیر ہمارے ملک میں حکومت کی گاڑی کوئی چلا کر دکھائے تو سہی! اگرچہ اس دوران کئی چھوٹے چھوٹے معاملات ایسے بھی رُونما ہوئے جو مجھے مایوس کرنے کے لیے کافی تھے لیکن آپ بھی جانتے ہیں کہ میرے جیسا کمانڈو آدمی کبھی مایوس ہو ہی نہیں سکتا، جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ فواد چودھری مجھے واپسی کی دعوت دیتے دیتے خود پیپلزپارٹی میں جا گھستے۔اگر وہ چھوڑ کر نہ بھی جاتے تو میں نے ان کی مشکوک سرگرمیوں کی بنا پر خود ہی انہیں پارٹی سے نکال دینا تھا! اگرچہ اس شخص نے مجھے گمراہ کرنے کی پوری پوری کوشش کی اور یہ بھی کہا کہ میرے یہاں پہنچتے ہی خاموش اکثریت سارا ائیرپورٹ ہی سر پر اٹھا لیتی اور مجھے کندھوں پر اٹھا کر آئے لے جاتی۔ اگرچہ کسی کے کندھوں پر سوار ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے، نہ ہی کسی کے کندھوں کا اعتبار کیا جاسکتا ہے، لیکن جب میں ائیر پورٹ پر اترا تو وہاں کوئی بندہ تھا نہ بندے کی ذات؛ چنانچہ معلوم ہوا کہ یہ خاموش اکثریت صرف گونگی ہی نہیں، اندھی اور بہری بھی ہے۔ یہیں سے آپ فواد چودھری کے بارے میں ٹھیک ٹھیک رائے قائم کرسکتے ہیں۔ بہرحال، ان چھچھوری حرکات کی وجہ سے میرے پائے استقامت میں ہرگز کمی نہیں آئی اور میں پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہوں کہ ملک اور قوم کو اس وقت میری قیادت کی اشد ضرورت ہے اور میں انشاء اللہ یہ ضرورت پوری کرکے رہوں گا۔ اگرچہ مجھے ادھر ادھر عدالتوں میں گھسیٹا جارہا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بقول حضرت عقابؔ جالندھری: ؎ تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقابؔ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے پھر جب سے میاں صاحب نے میرے لیے اپنے دل میں نرم گوشے کا اظہار کرنا شروع کیا ہے، میرا حوصلہ مزید بلند ہوگیا ہے جبکہ ان کا یہ فیصلہ انتہائی عقلمندی اور دوراندیشی کا مظہر ہے: ع ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی آج کا مقطع موسم اک شعلہ تھا شجر میں، ظفرؔ تھی جو اس طرح برگ و بار میں ہور ہور (پشتو) بمعنی آگ