پاکستان کے وسائل ختم ہونے والے نہیں… نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’پاکستان کے وسائل ختم ہونے والے نہیں‘‘ کیونکہ انہیں انتہائی بیدردی سے استعمال کر کر کے اس کا تجربہ کر لیا گیا ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا‘ صرف انہیں دریافت کرنے کی بات ہے جبکہ یہ محض سیاسی قائدین کو معلوم ہے کہ یہ وسائل کہاں کہاں ہیں اور ان سے کس طرح استفادہ کرنا ہے؛ چنانچہ اگلے وسائل ختم ہونے لگتے ہیں تو نئے دریافت کر لیے جاتے ہیں اور ’جوئندہ یابندہ‘ اسی کو کہتے ہیں‘ یہ سلسلہ چھیاسٹھ برسوں سے جاری ہے اور مستقبل میں اس کے بہتر ہونے کا کوئی خطرہ یا خدشہ نہیں۔بہتی گنگا اسی طرح بہتی رہے گی ۔ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان سب سے منظم ملک ہے‘‘ کیونکہ دونوں بڑی پارٹیوں نے باہمی افہام و تفہیم سے اسے مکمل طور پر تحفظ میں لے رکھا ہے اور کوئی تیسرا پر بھی نہیں مار سکتا؛ چنانچہ یہ روز بروز منظم سے منظم تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستانی مصنوعات کو امریکی منڈیوں تک رسائی دی جائے‘‘ جبکہ سب سے بڑی مصنوعات تو ہم عاجز و مسکین لوگ خود ہیں جنہیں قوم بڑی محنت سے تیار کرتی اور بعد میں حیران و پریشان ہوتی رہتی ہے کہ یہ ہم نے کیا بنا ڈالا ہے؟ آپ اگلے روز واشنگٹن میں توانائی کے شعبوں میں تعاون پر گفتگو کر رہے تھے۔ وزیراعظم نے دورۂ امریکہ پر اعتماد میں نہ لے کر سیاسی روایات کی نفی کی ہے… خورشید شاہ قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ’’وزیراعظم نے دورۂ امریکہ کے موقع پر اعتماد میں نہ لے کر سیاسی روایات کی نفی کی ہے‘‘ حالانکہ باہمی طور پر جو افہام و تفہیم ہوئی ہے اس کے پیش نظر ایسے معاملات یک طرفہ طور پر سرانجام نہیں دینے چاہئیں کیونکہ اس سے بدگمانی جنم لیتی ہے اور باہمی محبت اور اخوت میں فرق پڑتا ہے جو کہ دونوں فریقوں کے لیے بے حد ضروری ہے کیونکہ عوام اب ہمیں اچھی طرح سے پہچان چکے ہیں اور ذرا سی ایسی غلطی کے بھی ناگوار نتائج نکل سکتے ہیں‘ اس لیے ایسی سیاسی روایات نہ صرف قائم رہنی چاہئیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتے رہنا چاہیے تاکہ حسبِ سابق دونوں کی گاڑی باری باری چلتی رہے اور دونوں ہاتھوں سے عوام کی خدمت کی جاتی رہے۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ پتنگ بازی کی آڑ میں قیمتی جانوں کے ضیاع کی اجازت نہیں دے سکتے… شہباز شریف خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’ہم پتنگ بازی کی آڑ میں قیمتی جانوں کے ضیاع کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘ کیونکہ جو لوگ مہنگائی‘ بیروزگاری اور وسائل کی کمی کے ہاتھوں تنگ آ کر خودکشیاں کر رہے ہیں‘ فی الحال وہی کافی ہیں جبکہ ویسے بھی جانوں کے ضیاع کے لیے اب تک ہم سے کسی نے اجازت نہیں مانگی اور جو جانیں ضائع ہو رہی ہیں‘ ہماری اجازت کے بغیر ہی ہو رہی ہیں جو کہ نہایت بُری بات ہے کیونکہ ہم حکومت میں اس لیے نہیں آئے کہ کوئی ہم سے اجازت ہی نہ لے اور اپنی من مانی کرتا پھرے۔ انہوں نے کہا کہ ’’تاجر برادری ہمارا بھرپور ساتھ دے‘‘ کیونکہ حقوق العباد کا تقاضا بھی یہی ہے اور اس بات کا بھی لحاظ رکھا جائے کہ وزیراعظم کسی اقتصادی ماہر کی بجائے تاجر لوگوں ہی کو ساتھ لے کر امریکہ گئے ہیں کیونکہ برادری تو کوئوں کو بھی پیاری ہوتی ہے۔ اس لیے اگر تاجر برادری ہی ہمارا ساتھ نہ دے تو اور کون دے گا؟ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ نوازشریف کو اپنا ایجنڈا طاقتور پوزیشن میں پیش کرنا چاہیے… فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے ا میر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’نوازشریف کو اپنا ایجنڈا طاقتور پوزیشن میں پیش کرنا چاہیے‘‘ کیونکہ اگر خاکسار ان کے ساتھ ہے تو ان کی پوزیشن اور کتنی زیادہ مضبوط ہو سکتی ہے‘ اگرچہ انہوں نے میری پوزیشن مضبوط کرنے کے معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا اور محض لارا لپّا سے کام لے رہے ہیں جس طرح افغانستان حکومت نے پاکستانی قیدی رہا کرنے کا میرے ساتھ وعدہ کیا اور پھر مُکر گئی‘ حالانکہ میں نے تو صرف اپنے کارکن رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن وہ اس وعدے سے بھی پھر گئی‘ کیسا زمانہ آ گیا ہے جبکہ میں نے تو وہاں سے آ کر اعلان کر دیا تھا کہ میں نے وہ کر دکھایا ہے جو کئی سال سے کوئی بھی حکمران نہیں کر سکا تھا لیکن ظالموں نے میرے اس اعلان کی بھی کوئی لاج نہ رکھی‘ تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو۔ انہوں نے کہا کہ ’’ضمنی الیکشن کے نتائج طے شدہ تھے‘‘ جن میں ایک دو جگہ میرا گھونٹ بھرنا بھی شامل تھا حالانکہ میری وفاداریوں میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ آپ اگلے روز ملتان کے جامعہ قاسم العلوم میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی شاعر‘ نقاد‘ محقق اور استادالاساتذہ ڈاکٹر تحسین فراقی کی تازہ اور فکر انگیز کتاب ’’غالبؔ …فکرو آہنگ‘‘ کے نام سے غالب انسٹی ٹیوٹ‘ نئی دہلی سے شائع ہو گئی ہے جو غالب فہمی میں نمایاں طور پر مددگار ثابت ہوگی۔ اس کے عنوانات حسبِ ذیل ہیں۔ غالب: زیست اور تصورِ زیست۔ غالب کے فارسی مکاتیب… ایک جائزہ۔ مثنوی بیانِ نموداریٔ شانِ نبوت و ولایت اور غالب کے چند مذہبی معتقدات۔ مثنوی چراغِ دیر… ایک جائزہ۔ مثنوی ابرِ گہر بار اور غالب کے عمومی فکری رویے۔ ’’مہرِ نیم روز‘‘ اور غالب کا شعورِ دینی۔ این میری شمل بحیثیت غالب شناس… چند معروضات۔ پاکستان میں غالب شناسی… اجمالی جائزہ اور چند تجاویز۔ سبھی مضامین نہایت وقیع اور معلومات افزا ہیں اور غالب کے فن اور شخصیت کو سمجھنے میں مددگار ہیں جبکہ سب سے دلچسپ مضمون این میری شمل والا ہے جس میں ترجمے کی اغلاط کی نشاندہی کی گئی ہے جو بعض مقامات پر نہایت مضحکہ خیز بھی ہیں۔ قیمت 150 روپے رکھی گئی ہے۔ آج کا مطلع اُس کے گلاب‘ اُس کے چاند جس کی بھی قسمت میں ہیں آپ‘ ظفرؔ کس لیے اتنی مصیبت میں ہیں