طالبان سے مذاکرات شروع کردیئے ہیں… نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’طالبان سے مذاکرات شروع کردیئے ہیں‘‘ اگرچہ بقول چودھری نثار علی خان ابھی اس کا طریقہ کار ہی طے کر رہے ہیں لیکن اسی کو مذاکرات سمجھا جائے کیونکہ بجلی بحران ختم کرنے کی طرح ہم اس کا بھی طریقہ کار ہی طے کر رہے ہیں اور ایسے کاموں میں دیر سویر ہو ہی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مزید قتل و غارت نہیں دیکھ سکتے‘‘ کیونکہ اتنی ہی قتل و غارت دیکھ سکتے تھے جتنی ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’امید ہے‘ کامیابی ہوگی‘‘ کیونکہ دنیا امید پر ہی قائم ہے اور مایوس ہونا گناہ ہے‘ اب یہ طالبان پر منحصر ہے کہ وہ انہیں کامیاب ہونے دیتے ہیں یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’آئین کے اندر رہ کر ہی مذاکرات ہوں گے‘‘ کیونکہ ہم ایسا ہی کریں گے البتہ طالبان آئین کو تسلیم کرتے ہیں نہ ہماری پیاری جمہوریت کو‘ جس کے فضائل و برکات وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔اسی لیے انہیں اس جمہوری عمل میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے کہ انہیں سمجھ آ سکے کہ خدا کس طرح چھپّر پھاڑ کر دیتا ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ تازہ امریکی ڈرون حملے سے مذاکرات متاثر نہیں ہوں گے… فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’تازہ ڈرون حملے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات متاثر نہیں ہوں گے‘‘ کیونکہ مذاکرات نے تو ویسے بھی ناکام ہو جانا ہے۔ اس لیے ڈرون حملوں کے بارے میں سر کھپانے کی ضرورت ہی نہیں ہے ؛ البتہ قابلِ غور اور باعثِ تشویش بات یہ ہے کہ وزیراعظم کی لندن سے واپسی پر کابینہ میں توسیع کی جو اطلاعات مل رہی ہیں‘ اس میں خاکسار کی کسی ترجیح پر عمل ہوتا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’وزیراعظم کے دورۂ برطانیہ کے موقع پر ڈرون حملہ قابلِ نفرت ہے‘‘ البتہ یہ قابلِ مذمت ہرگز نہیں ہے ،ورنہ میں اس کی مذمت ضرور کرتا جو کہ میں نے آج تک نہیں کی کیونکہ طالبان بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں بلکہ ہم سے زیادہ مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں‘ اس لیے اسلامی اخوت کا بھی کچھ خیال رکھنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’امن مذاکرات میں تاخیر فطری عمل ہے‘‘ اور چونکہ اس کا آغاز وزیراعظم نے کرنا ہے اور وہ فطرت کے نہایت قریب رہتے ہیں‘ اس لیے مزید تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔ مذاکرات کے دوران ڈرون حملہ ہوا تو نیٹو سپلائی بند کردیں گے… عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’مذاکرات کے دوران ڈرون حملہ ہوا تو نیٹو سپلائی بند کردیں گے‘‘ اگرچہ کل ہی یہ حملہ ہو چکا ہے لیکن چونکہ مذاکرات ابھی شروع ہی نہیں ہوئے اور وزیراعظم طفل تسلیاں ہی دے رہے ہیں‘ اس لیے نیٹو سپلائی بند کرنے کا ابھی وقت نہیں آیا اور جو آئندہ دو برس تک ہوتے نظر نہیں آتے‘ لہٰذا ڈرون حملوں کا تسلسل جاری رہنے کے باوجود نیٹو سپلائی بند نہیں کریں گے کیونکہ اس وقت تک نیٹو افواج ویسے ہی افغانستان سے نکل جائیں گی اور ان کی سپلائی بھی خود بخود بند ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’مہنگائی کے خلاف بہت جلد تحریک شروع کریں گے‘‘ کیونکہ بعض وجوہ کی بنا پر پارٹی تو چل نہیں رہی اس صورت میں تحریک ہی چلانے کا آپشن موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر مذاکرات ناکام ہو گئے تو ہم خود کریں گے‘‘ کیونکہ اگر انہوں نے بہرصورت ناکام ہی ہونا ہے تو ہمارے ہاتھوں ہی کیوں نہ ہوں‘ آخر ملکی سیاست میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوگی… منظور وٹو پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خان وٹو نے کہا ہے کہ ’’بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوگی‘‘ اگرچہ خاکسار نے عام انتخابات میں بھی کامیابی کی پیشین گوئی کی تھی لیکن نہیں ہو سکی‘ شاید لوگوں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ پیشین گوئی کر کون رہا ہے؛ تاہم ہم اسے بھی شکستِ فاتحانہ ہی قرار دیتے ہیں کیونکہ اپنے دور میں ہم نے دیگر کامیابیاں ہی اس قدر حاصل کر لی تھیں کہ باقی ساری کامیابیاں ان کے سامنے ہیچ ہیں جبکہ ایک وقت میں ایک ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے‘ اور وہ بھی اتنی بابرکت کہ جس سے آئندہ نسلیں بھی جی بھر کے بلکہ پیٹ بھر کے مستفید ہوتی رہیں۔انہوں نے کہا کہ ’’وزیراعلیٰ کو بیرون ملک دوروں سے فرصت نہیں‘‘ حالانکہ ملک کے اندر رہ کر زیادہ فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اس لیے میں نے اپنے دور میں شاید ہی کوئی غیر ملکی دورہ کیا ہو اسی لیے زرداری صاحب کو کہنا پڑا کہ حساب دو یا حصہ؟ آپ اگلے روز ماڈل ٹائون میں سرگودھا سے آئے ہوئے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔ عامر سہیل محمد اظہار الحق کی طرح عامر سہیل بھی شاعروں کا شاعر ہے کہ عامتہ الناس تک ابھی اس ذائقے کی رسائی نہیں ہوئی؛ چنانچہ انہیں ہم شاعر لوگ ہی پڑھتے‘ اس شاعری سے لطف اندوز اور انسپائر ہوتے ہیں۔ میں نے شوکت عابد کے زیر طبع مجموعۂ کلام کے فلیپ میں لکھا ہے کہ شاعری کی ٹرین میں درمیانہ درجہ نہیں ہوتا۔ فسٹ کلاس ہوتی ہے یا تھرڈ کلاس۔ اور اگر کوئی شعر اوّل درجے کا نہ ہو تو وہ تیسرے درجے کا ہی شمار ہوگا۔ بے شک وہ درمیانے درجے کا بھی ہو‘ کیونکہ گزارے موافق شاعری کی گنجائش ہے نہ ضرورت۔ اصل بات یہ ہے کہ مروج زبان میں مزید شاعری ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ بذاتِ خود ایک کلیشے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ میرا تھیسس تو شروع سے ہی یہ چلا آ رہا ہے کہ زبان کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘ اور جس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ شعر میں لفظ کا غیر معمولی‘ غیر مانوس اور غیر متعلق لفظ استعمال کر کے ہی معنی آفرینی اور تازگی کا معجزہ برپا کیا جا سکتا ہے جبکہ عامر سہیل کی بے پناہ انفرادیت بھی بیشتر اسی فارمولے پر منحصر چلی آ رہی ہے اور جس نے ابھی مزید پرپُرزے بھی نکالنا ہیں۔ ’’تیوہارکا پانی‘‘ اور ’’مشہدِ عشق‘‘ وغیرہ کے بعد اب اس کا تازہ مجموعۂ کلام شائع ہو کر منصۂ شہود پر آیا ہے جس کا نام ہے ’’کچھ پنچھی پنکھ گراتے ہیں‘‘ جو بُک ہوم نے شائع کی ہے اور جس میں حسب معمول نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔ فلیپ پر محمد اظہار الحق‘ امجد اسلام امجد‘ خورشید رضوی‘ سلیم شہزاد اور جنیت پرمار (بھارت) کی توصیفی آراء درج ہیں۔ اس کی ایک نظم دیکھیے: کلیشے توڑتی ہے/ نظم شیشے توڑتی ہے/ پتھروں میں ہست کی پیوندکاری/ حاسدوں کی آنکھ سے گہری کٹاری/ کانچ کے بے داغ فرشوں پر/ جو اہر پھوڑتی ہے/ نیلگوں غصہ ہے جاری/ یہ بدیسی عورتوں کے جسم سے بڑھ کر کنواری/ اک گلابی اور آبی بے حجابی/ ہفت خوابی انگلیوں سے/ بُن رہی ہے دل کی لابی/ جس میں بھوری کہکشائیں/ وہ پری خانہ جہاں پوشاک سے عاری ادائیں/ بدلحاظی کی حکایت چھانتی ہے/ جو جہاں پر جس طرح کے خواب دیکھے/ نظم خوابوں کی زبانیں جانتی ہے/ ٹوٹے پھوٹے عہد کی گستاخ بے ترتیب سطریں/ خوش دلی سے جوڑتی ہے/ ملک میں جعلی معزز اُس کی باگیں موڑنے کا/ قصد کرتے ہیں تو زینہ چھوڑتی ہے/ بادشاہوں کو جھڑک دیتی ہے عامرؔ/ خلق کو جھنجھوڑتی ہے/ نظم شیشے توڑتی ہے۔ آج کا مقطع آسماں پھیلے ہوئے دام کی صورت ہے‘ ظفرؔ عکس اڑتے ہیں پگھلتی ہوئی پہنائی میں