نوجوانوں کو قرض کے حصول میں سہولیات فراہم کی جائیں گی… نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’نوجوانوں کو قرض کے حصول میں سہولیات فراہم کی جائیں گی‘‘ جبکہ سارا کاروبار قرضوں کے حصول اور نوٹ چھاپنے سے ہی چل رہا ہے‘ حتیٰ کہ قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے بھی قرض ہی لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’نوجوان ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں‘‘ ؛ چنانچہ انہیں مفت کا مال نہ سمجھا جائے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت انہیں روزگار کی فراہمی یقینی بنائے گی‘‘ جبکہ قرض حاصل کرنے سے بڑا روزگار اور کیا ہو سکتا ہے جبکہ کاروبار میں ناکامی ظاہر کر کے قرض معاف بھی کرایا جا سکتا ہے اور سیاسی لوگ کروڑوں کا قرضہ لے کر معاف بھی کرا لیتے ہیں اور نہ انہیں بینک پوچھتے ہیں نہ حکومت؛ چنانچہ اس کے نہایت منفعت بخش کاروبار ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’نوجوان ہمارا اثاثہ اور بڑی طاقت ہیں‘‘ حتیٰ کہ بیرونی ملکوں میں مقیم ہمارے نوجوان بھی بیرون ملک اثاثوں کی طرح ہمیں دل و جان سے پیارے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اجلاس میں بریفنگ لے رہے تھے۔ عوام نے ڈرنے کی بجائے ڈینگی سے لڑنا سیکھ لیا ہے… شہباز شریف خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’عوام نے ڈرنے کی بجائے ڈینگی سے لڑنا سیکھ لیا ہے‘‘ اور ہمارے عوام چونکہ ہماری طرح مومن واقع ہوئے ہیں‘ اس لیے وہ بے تیغ ہی لڑ رہے ہیں اور حکومت کو اس معاملے میں ساری ذمہ داریوں سے آزاد کردیا ہے؛ البتہ بعض لوگ ڈینگی سے لڑتے لڑتے شہید بھی ہو جاتے ہیں یعنی ہم خُرما و ہم ثواب۔ انہوں نے کہا کہ ’’تین روز میں اس کے انسداد کے لیے اجلاس بلایا جائے گا‘‘ اگرچہ اس کی کارروائی مکمل ہونے‘ تجاویز آنے اور ان پر عمل درآمد تک کچھ مزید مریض بھی شہادت کا رتبہ حاصل کر لیں گے کیونکہ اللہ میاں جس پر مہربان ہوتے ہیں اُسے عاقبت کی تمام فکروں سے آزاد کر دیتے ہیں جبکہ ان کی دنیاوی فکروں کے ازالے کے لیے ہمارے پختہ عزائم اور نیک ارادے ہی کافی ہیں کیونکہ آدمی اگر کوئی ارادہ کر لے تو آدھا کام سمجھ لیجیے کہ خود ہی ہو جاتا ہے جبکہ ہم عوام کے جملہ مسائل حل کرنے کا ارادہ باندھ چکے ہیں‘ اس لیے آدھی کامیابی حاصل کر چکے ہیں‘ باقی آدھی بھی اللہ کو منظور ہوا تو حاصل ہو جائے گی جبکہ دیگر کامیابیاں اس کے علاوہ ہیں۔ آپ اگلے روز سول سیکرٹریٹ میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ ملک کو قائداعظم اور اقبال کا پاکستان بنائیں گے… عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’ملک کو قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان بنائیں گے‘‘ بصورت دیگر یہ عمران خان کا پاکستان تو بن ہی جائے گا جس کے لیے میں سر توڑ کوشش کر رہا ہوں‘ لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ سر بھی توڑ بیٹھوں اور مقصد بھی حاصل نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ’’امریکہ کا پاگل پن روکنے کے لیے نیٹو سپلائی بند کردیں گے‘‘ البتہ اگر وہ اس سے پہلے ہی پاگل خانے میں داخل ہو جائے تو شاید ہمیں یہ نیک کام نہ ہی کرنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملے شدت پسندی کو بھڑکا رہے ہیں‘‘ البتہ اگر یہ بھڑکے بغیر یعنی معمول کے مطابق ہی جاری رہے تو خیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’امریکہ نے ڈرون حملہ کر کے مذاکرات کو تباہ کردیا‘‘ جو ویسے بھی کامیاب نہیں ہونے تھے اس لیے امریکہ نے یہ لعنت مفت میں اپنے سر لے لی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم امن کے لیے ہر وہ کام کریں گے جو ہماری دسترس میں ہوگا‘‘ اور ہمارے وزیراعلیٰ کی زبردست طاقت اور دسترس سے کون واقف نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وفود سے گفتگو کر رہے تھے۔ عمران خا ن سے دشمنی نہیں‘ نظریاتی اختلافات ہیں… فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’عمران خان سے دشمنی نہیں‘ نظریاتی اختلافات ہیں‘‘ اور جو صرف اسی قدر ہیں کہ خیبر پختونخوا پر تو اے این پی اور ہماری اجارہ داری تھی‘ یہ کہاں سے ٹپک پڑے ہیں اور سارے صوبے میں یہودیت پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ اختلافات ختم ہو سکتے ہیں‘‘ بشرطیکہ عمران خان نیٹو سپلائی بند کرے اور فارغ ہو جائے‘ اس کے علاوہ کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ اس سلسلے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں اور حکومت کو 20 نومبر تک خواہ مخوا ہ مہلت دے دی ہے۔ حالانکہ وہ یہ کارِ خیر خود بھی سرانجام دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’حالیہ ڈرون حملے سے امن کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی‘‘ علاوہ ازیں بہتر ہوتا اگر وہ چار پانچ کتے بھی شہید کر دیتے جو اپنے طور پر امن کوششوں میں رکاوٹ ڈالتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’عمران خان اور میں ذاتی طور پر ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں‘‘ جو میرے آئے دن کے بیانات سے صاف ظاہر ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ ایک مثبت تجویز مذاکرات کے اس مخدوش ماحول میں بہتر ہوگا کہ ملک کے محبِ وطن طالبان سے ہی مذاکرات کا آغاز کر دیا جائے جو طالبان کے صدقے واری جاتے جاتے ان کے ساتھ یک جان دو قالب کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جبکہ ایجنسیوں اور افواج پاکستان کی نمائندگی کے لیے چودھری نثار علی خاں‘ شیخ رشید احمد اور چودھری برادران ہی کافی ہیں بلکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو ان اداروں کی نمائندگی کا سلیقہ‘ اہلیت اور تجربہ نہ رکھتا ہو۔ لہٰذا زیادہ لالچ نہ کیا جائے اور ان دستیاب طالبان سے ہی معاملات طے کر لیے جائیں جن میں کچھ حکمران بھی شامل کیے جا سکتے ہیں جن کی وجہ سے طالبان نے پنجاب کو اپنی کرم فرمائیوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے؛ چنانچہ اگر ان حضرات کے ساتھ معاملات طے ہو گئے تو یہ اصلی تے وڈے طالبان کے ساتھ بھی مسئلہ حل کر لیں گے جن کے ساتھ ان معززین کا قارورہ ملتا ہے کیونکہ وہ لوگ فی الحال کسی اور کی بات سننے کے بھی روادار نہیں ہیں اور انکار پر انکار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ آج کا مقطع تعلق جو توڑا تھا خود ہی‘ ظفرؔ تو پھر کس لیے بے قراری ہے یہ