اسلامی ریاست کے خلاف طاقت کا استعمال بغاوت ہے:طاہر القادری شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ ’’اسلامی ریاست کے خلاف طاقت کا استعمال بغاوت ہے‘‘ اگرچہ میں خود بھی پوری طرح اسے اسلامی ریاست نہیں سمجھتا؛ البتہ اسے ایسا بنانا چاہتا ہوں لیکن طالبان آ گئے تو میرا کیا بنے گا۔ اسی لئے مجبوراً اسے اسلامی ریاست قرار دے رہا ہوں تاکہ طاقت کے استعمال کا فتویٰ صادر کر سکوں؛ جبکہ فتویٰ سازی کے لئے اس ملک میں اور کوئی بڑا کاروبار باقی رہ ہی نہیں گیا کیونکہ ایک دوسرے کے خلاف فتووں کی رونق لگی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’فقہی مذاہب کے مطابق باغیوں کو کچلنا دینی حکم ہے‘‘ اور ،اب تو میں بھی‘ یہ حکم لگا رہا ہوں اس لئے اس بارے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہنا چاہئے اگرچہ میری ذاتِ بابرکات کے بارے میں دشمنوں نے کافی شبہات پھیلا رکھے ہیں جن کی میں تردید بھی کرتا رہتا ہوں لیکن یہ ایک تو ہّم پرست قوم ہے، اگر ایسی نہ ہوتی تو سبز انقلاب برپا کر کے میری قیادت ہی کو تسلیم کر لیتی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور میں فکر مند رہتا ہوں کہ آخر اس قوم کا کیا بنے گا؟ آپ اگلے روز منہاج القرآن علماء کونسل کی ایگزیکٹو سے خطاب کر رہے تھے۔ مسلم لیگ کی یوتھ پالیسی کاغذی سکیم ہے:وٹو پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ’’مسلم لیگ ن کی یوتھ پالیسی کاغذی سکیم ہے‘‘ حالانکہ کاغذ وہ مقدس چیز ہے جس پر نوٹ چھپتے ہیں اور موجودہ حکومت کاغذ کی اس فضیلت سے خود بھی اچھی طرح واقف ہے لیکن اس کے باوجود اسے ایسی سکیموں پر ضائع کر رہی ہے جبکہ کڑکڑاتے نوٹوں کی تو خوشبو بھی خاصی مسحور کن ہوتی ہے ، تاہم ایسا لگتا ہے اب موسم کے تبدیل ہونے پر زکام وغیرہ کی وجہ سے ان کے سونگھنے کی اہلیت ویسے ہی ختم ہو گئی ہے، انہوں نے کہا کہ ’’مسلم لیگ ن نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے اس پالیسی کا اعلان کیا ہے‘‘ جبکہ ہم نے اپنے دور میں صرف مہنگی شہرت حاصل کی جس کے ڈنکے چار دانگِ عالم میں بج رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس پالیسی کی منظوری کا اعلان اس وقت کیا گیا ہے جب مسلم لیگ ن کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا ہے‘‘ جبکہ ہماری مقبولیت کا گراف مسلسل اونچا ہوتا رہا حتیٰ کہ اسے چھونے کے لئے سیڑھیوں کا سہارا لینا پڑتا اور اس اونچائی میں خاکسار کا حصہ سب سے زیادہ نمایاں تھا۔آپ اگلے روز لاہو ر میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات میں دخل اندازی نہ کرے:بلاول پیپلز پارٹی کے سرپرست ِ اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات میں دخل اندازی نہ کرے‘‘ اگرچہ پاپا کے معاملے میں بھی کافی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے اپنی شہرۂ آفاق کاریگری سے اسے ناکام بنا دیا اور پتہ اس وقت چلا جب ان مقدمات کے کھولے جانے کی میعاد ہی گزر چکی تھی، تاہم اس ضمن میں ہمیں ایک وزیر اعظم کی قربانی ضرور دینا پڑی جس سے پاپا ویسے بھی جان چھڑانا چاہتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے حصے سے بڑھ کر ملک و قوم کی خدمت کر لی تھی اور ایک نئے وزیر اعظم کو موقع دینا ضروری تھی جنہوں نے ما شااللہ تھوڑی مدت میں ہی کْشتوں کے پشتے لگا دیئے کہ آخر وہ بھی تربوز بیچنے کے لئے نہیں آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’موجودہ حالات میں شفاف انتخابات کرانا ممکن نہیں‘‘ جبکہ شفافیت کا زمانہ ہماری میعاد کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مئی کے عام انتخابات میں عدلیہ پر انگلیاں اٹھائی گئیں‘‘ جبکہ ہمارے وقت میں لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر فریاد کر رہے تھے کہ اْن کی خدمت ضرورت سے زیادہ ہی ہو گئی ہے۔ آپ اگلے روز ویب سائٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ نیت کا فتور سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے التواء کے لئے جو یکسْو نظر آتی ہیں تو اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ یہ انتخابات چونکہ انہیں راس نہیں ہیں اس لئے یہ تاخیری ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں اور اگلے ماہ چیف جسٹس افتخار چودھری کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ وہی ان کے لئے زور دے رہے ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ لوگ اس مسئلے سے کسی نہ کسی طرح نمٹ لیں گے ۔ واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات کم و بیش ہمیشہ ہی کسی فوجی ڈکٹیٹر نے کرائے جن کے ذریعے اختیارات کا وہ حصہ ان بلدیاتی نمائندوں کو منتقل ہو جاتا ہے جو ان شرفاء کو ہرگز منظور نہیں ہے کیونکہ انہیں اس صورت میں اپنے کچھ اختیارات سے دستکش ہونا پڑے گا۔ چنانچہ شہباز حکومت نے اپنی پوری مدت ایسے ہی گزار دی اور بلدیاتی انتخابات کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا جبکہ دیگر صوبائی حکومتوں کا وتیرہ بھی ایسا ہی تھا؛ حتیٰ کہ مرکزی حکومت بھی اپنے ارکان اسمبلی کے اختیارات میں کمی کے حق میں نہ تھی۔ حالانکہ عوام کے بنیادی مسائل صرف اور صرف بلدیاتی نظام کے تحت ہی حل ہوتے ہیں جس سے ارکان اسمبلی کے حلوے مانڈے پر بھی اثر پڑتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید قاسم جاوید قاسم کا شمار ہمارے معروف شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے غزل گوئی میں اپنی پہچان قائم کر لی ہے۔ ماہنامہ ’’احوالِ لاہور‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی ان کی غزل کے چند شعراء قارئین کی ضیافتِ طبع کے لئے پیش ہیں:۔ سوادِ تیرہ شبی میں حدِ سحر سے اْدھر میں جل رہا ہوں تری چشم چارہ گر سے اْدھر گماں کہیں نہ ہوا دھوپ کے سفر میں مجھے میں ہٹ کے چلتا رہا جب تلک شجر سے اْدھر زمانہ جب مرے ہونے کے انتظار میں تھا پڑی تھی خاک مری دست ِکْوزہ گر سے اْدھر وہاں بھی حْسنِ نظر کا نہیں کوئی امکاں اگر میں لوٹ بھی جائوں تری نظر سے اْدھر صدائیں دیتی رہیں منزلیں مجھے قاسم پڑا رہا مرا رختِ سفر،سفر سے ادھر آج کا مقطع جہاں جہاں مرے عیبوں کی آندھیاں ہیں، ظفر وہیں میں لے کے چراغِ ہُنر بھی آتا ہوں