خبرنامہ ’’شب خون‘‘ کا تازہ شمارہ نظر نواز ہوا ہے ، بیشک یہ کوئی باقاعدہ جریدہ نہیں ہے، لیکن اپنے مشمولات کے باعث اس کا انتظار رہتا ہے جو اکثر اوقات معلومات افزا اور دلچسپ ہوتے ہیں۔ زبان و ادب کے حوالے سے بیش قیمت تحریروں سے مزّین یہ ہلکا پھلکا پرچہ واقعتاً ایک خوبصورت دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے، مثلاً اس بار دْنیا کو حال ہی میں چھوڑ جانے والے ادیبوں کے بارے میں ایسی دلکش تحریریں دستیاب ہیں کہ تاج محل کے بارے میں ایک انگریز خاتون کے مشہور جْملے کے مصداق ، اگر مجھے اتنے اچھے لفظوں میں یاد کیا جائے تو میں آج ہی مرنے کو تیار ہوں۔ اس میں شائع ہونے والے اکثر مکتوب باقاعدہ مضامین کی حیثیت رکھتے ہیں جن میں معاصر ادیب اور ادیبوں کے احوال و اذکار ایک الگ ذائقے کے حامل ہوتے ہیں۔ مرحومین کے حوالے سے احمد ہمیش، مانک ٹالہ، سکندر احمد، فرمان فتح پوری، خواجہ جاوید اختر، اصغر علی انجینئر کی یادنگاری قابلِ رشک طریقے سے کی گئی ہے، اس کے علاوہ دستور ہند کے دائرے میں اردو کے فروغ کی صورتیں ،اردو کے مسائل پر گفتگو، اردو کی نمائشی خدمت گزاری، نئی نسل اور شناخت کا مسئلہ ، شیام اور منٹو کی دوستی کی امر کہانی، میرا جی ،میرے تایا، عطیہ فیضی، میرا جی، بڑے شاعروں پر مباحثہ اور ’’کئی چاند تھے سرِ آسمان ‘‘پر باقاعدہ مضامین اور ، خاصے کی چیزیں ہیں۔ اسی سال جنوری میں میرے اور شمس الرحمن فاروقی کے مابین چلنے والے ایک دوستانہ تنازع کی بازگشت بھی اس پرچے میں ایک سے زیادہ جگہوں پر موجود ہے اور ایک طرح سے گڑے مردے اکھاڑے گئے ہیں جبکہ یہ حکایت اتنی لذیذ نہیں تھی کہ اب تک طول کھینچتی۔ اس ضمن میں حضرات راشد جمال فاروقی اور واجد علی سید کے رشحات قلم بطور خاص قابل ذکر ہیں جن میں اس گْنہگار پر مختلف قسم کے طومار باندھے گئے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ کرم فرمائی شمس الرحمن فاروقی کے اپنے زورِ قلم کا نتیجہ ہے لیکن اگر مذکورہ پس منظر میں فاروقی کے پرچے میں میرے بارے میں ایسے سوالات اٹھائے جاتے ہیں جو حقائق کم اور غلط بیانی کی ذیل میں زیادہ آتے ہوں تو صاحب موصوف کی ذاتِ والا صفات کو اس سے مبّرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم مجھ پر تنقید کرنا ہر کسی کا حق ہے کیونکہ یہ کام میں خْود بھی کرتا ہوں لیکن بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا کم از کم ادبی دیانتداری کی ذیل میں نہیں آتا، اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ میں اپنے آپ کو سب سے بڑا غزل گو منوانا چاہتا ہوں، یا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے بہت جلدی میں ہوں یا کسی نقاد کی سیڑھی استعمال کر کے اپنا قد اونچا کرنا چاہتا ہوں۔ میرا گناہ صرف یہ ہے کہ میں نے ’’استعارہ ‘‘ میں شائع ہونے والی کسی زینب علی کے مضمون کا حوالہ دیا تھا جس کا ابتدائی جملہ ہی یہ تھا کہ کیسا زمانہ آ گیا ہے ظفر اقبال کو غالب سے بڑا شاعر قرار دیا جا رہا ہے۔ بقول مذکورہ مکتوب نگار حضرات کے بھی فاروقی میرے حق میں رطب اللسان رہتے تھے ، میں نے یہی اندازہ لگایا کہ اور کسی میں اتنی بڑی بات کہنے کی ہمت نہیں ہو سکتی ، ماسوائے میرے دوست فاروقی کے۔ اس کے علاوہ مجھے مشفق خواجہ مرحوم نے بھی لکھا کہ انہوں نے کسی ریڈیو ٹاک میں فاروقی کو یہ کہتے سنا ہے کہ ظفر اقبال غالب سے بڑا شاعر ہے اور میں اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتا، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس بات کو پَر اس وقت لگے جب برادرم انتظار حسین نے کئی مواقع پر یہ کہا کہ ظفر اقبال یہ کہتا ہے ؛ تاہم بھارت میں کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہاں اس خاتون سے دریافت کرتا کہ انہوں نے کس بناء پر یہ بات کہی ہے اور یہ دعویٰ کرنے والا کون ہے۔ میری جس تحریر کا حوالہ ان حضرات نے دیا ہے ، اس میں واضح طور پر کہہ چکا ہوں کہ اگر فاروقی نے یہ بات کہی ہو تو یہ سند نہیں ہو سکتی، نہ ہی میں کسی کے کہنے سے چھوٹا یا بڑا ہو سکتا ہوں۔ میں اتنا ہی رہوں گا جتنا کہ ہوں۔ چنانچہ میں نے جو بات اشارۃً کہی تھی اسی پر پکڑا گیا، حالانکہ اس کے بعد فاروقی سے میری لاہور، اسلام آباد اور جدّہ میں ملاقات بھی ہوئی، اور، اگر یہ بات اتنی ہی اہم ہوتی تو میں ان سے اس کی تصدیق ضرور کرتا۔ جہاں تک خود توصیفی کا تعلق ہے تو اپنی شاعری ہی میں جتنی بھدمیں نے خود اپنی اڑائی ہے، کوئی اور کیا اڑائے گا اور میری ساری شاعری میں تعلی کا شاید ہی کوئی شعر نکالا جا سکے ۔ میں نے اپنے کْلیات کی پہلی جلد ہی میں کہہ دیا تھا کہ اس بات کا اندازہ میرے مرنے کے کم از کم پچاس سال بعد ہو گا کہ میں بڑا شاعر تھا یا چھوٹا، یا شاعر تھا بھی کہ نہیں۔ اور اگر اس کے باوجود یہ کہا جائے کہ بقول جناب محمد حمید شاہد، میں اپنے آپ کو جلداز جلد سب سے بڑا غزل گو منوانا چاہتا ہوں تو اس سے زیادہ شرمناک بات کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ ان حضرات کے انشراحِ صدر کے لئے میرا مضمون بعنوان ’’ہم کو شاعر نہ کہو میر‘‘ کافی ہونا چاہئے جو ’’سیپ‘‘ کراچی اور ’’زرنگار‘‘ فیصل آباد میں شائع ہوا تھا اور جس میں یہی عرض کیا گیا تھا کہ یار لوگ خواہ مخواہ پریشان ہیں، میں تو اپنے آپ کوشاعر سمجھتا ہی نہیں بڑا شاعر سمجھنا تو دور کی بات ہے۔میں نے اپنی اس مذکورہ تحریر میں بھی کہا تھا کہ یہ میرا اور فاروقی کا ذاتی معاملہ ہے اور ہم دونوں اس کے لیے خود کافی ہیں اور کسی دوسرے کو اس میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں ہے چنانچہ اب موصوف اس سلسلے کو جاری بھی رکھنا چاہتے ہیں تو کچھ ضروری معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ فاروقی نے ایک انٹرویو میں خود کہہ رکھا ہے کہ ہم کسی کے بارے میں رائے دینے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کس (دھڑے) کا آدمی ہے۔چنانچہ جب تک وہ مجھے اپنا آدمی سمجھتے تھے ، میری تعریفوں کے پل باندھتے رہے لیکن بعد میں جب میں نے ان کے مصدقہ ’’حریف‘‘ گوپی چندنارنگ سے اپنے کلیات کی ایک جلد کا پس سرورق لکھوایا بلکہ ایک اور جلد ان کے نام معنون کردی تو انہوں نے سمجھا کہ یہ اب تو میرا آدمی نہیں رہا۔پھر طرہ یہ کہ میری ان کے ساتھ ان بن بھی ہوگئی اور دو سال تک ہمارے درمیان مکمل مقاطعہ رہا۔یقینا اس دوران انہوں نے اپنے اس بیان سے رجوع کرنا ضروری سمجھا ہوگا جو اس سارے فساد کی جڑ ٹھہرا۔ یقینا انہیں اس بات کا حق حاصل تھا لیکن اگر وہ صاف مکرنے کی بجائے اتنا کہہ دیتے کہ پہلے میں یہ سمجھتا تھا ۔ لیکن اب نہیں، تو کوئی مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ فاروقی میرے دوست اور ایک بھائی ہیں اور زمانے تک میرے زبردست مداح بھی رہے ہیں۔ اب اگر یہ معاملہ دوسروں نے بھی سنبھال لیا ہے تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ کوئی سخن فہم یا غالب کا طرف دار، اتنی جرات رکھتا ہے کہ ان کے سر پر قرآن کریم رکھ کر ان سے یہ پوچھ سکے کہ کیا آپ حلفاً کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے کبھی ظفر اقبال کو غالب سے بڑا شاعر قرار نہیں دیا، اور اس کے بیٹے سے کبھی یہ نہیں کہا کہ میر کے بعد ظفر اقبال ہیں؟ یعنی اگر آپ راستی پر نہ ہوتے ہوئے بھی بات کو ختم کرنا نہیں چاہتے تو یاد رکھیے میں آپ کو بھاگنے نہیں دوں گا! اور یہ بھی یاد رکھیے کہ برسہا برس پرانے رشتے اتنے کچے نہیں ہوتے کہ ایک آدھ جھٹکے ہی سے ٹوٹ جائیں، چنانچہ میں آپ کو اس تعلق اور رشتے سے بھی بھاگنے نہیں دوں گا کہ یہ گلے پڑا ڈھول ہی سہی، بجانا تو پڑے گا!! آج کا مقطع اب اْس کی سوچ کے ساحل سے آ لگا ہوں، ظفر کہ ایک عمر رہا ہوں بھنور کی صحبت میں