ڈرون حملے بند کرنے کا دل
سے کہتے ہیں... نوازشریف
وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ڈرون حملے بند کرنے کا دل سے کہتے ہیں‘‘ البتہ دماغ سے اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ جب سوچتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ اگر سچ مچ ہی کہہ دیا تو پھر کھائیں گے کیا‘ اس لیے ہمارا دل سے کہنا ہی کافی سمجھا جائے‘ اور جب میں صدر اوباما کو کاغذ سے پڑھ کر یہ مطالبہ کر رہا تھا تو میرا دل اس وقت دھک دھک کر رہا تھا لہٰذا اس مطالبے کو دل سے ہی کیا جانا سمجھنا چاہیے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''ہم دوغلے لوگ نہیں ہیں‘‘ بلکہ ماشاء اللہ اس سے اگلی منزل تک پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''جج ماسک پہن کر دہشت گردی کے مقدمات سنا کریں‘‘ جبکہ ہم سیاستدان بھی اس بارے بہت غورو خوض کر رہے ہیں‘ اور اسی لیے میں نے زیادہ باہر نکلنا بھی بند کردیا ہے کیونکہ جان بچانا بہرحال فرض ہے اور ہم فرض کی ادائی سے کبھی نہیں چوکتے جبکہ حکومت کا بوجھ بھی فرض سمجھ کر ہی اٹھا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اوباما کے سامنے بیٹھ کر ڈرون حملوں کی بات کی‘‘ اور وہ حیران ہو کر مجھے دیکھتے رہے کہ مجھے کیا ہو گیا ہے لیکن اتفاقاً اس وقت ان کا ہاسا بھی نکل گیا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
نیٹو نے پاکستان کے دروازے
پر دستک دے دی... فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ
''نیٹو نے پاکستان کے دروازے پر دستک دے دی‘‘ جس کا مناسب اور سیاسی جواب تو یہ ہے کہ کہلا دیا جائے کہ ہم گھر پر نہیں ہیں اور انہیں عمران خان کے گھر بھیج دیا جائے کیونکہ نیٹو سپلائی وہ بند کر رہا ہے اور ہم تو صرف قدرت کا تماشا دیکھ رہے ہیں کیونکہ آنکھیں اللہ میاں نے دیکھنے کے لیے ہی دی ہیں جبکہ پختونخوا میں گورنر راج لگنے کی بہت امید تھی لیکن وزیراعظم نے یہ کہہ کر کھوتا ہی کھوہ میں ڈال دیا ہے کہ وہ کسی صوبائی حکومت کو نہیں گرائیں گے اور اس طرح ہمارے جذبات کا خون کردیا ہے اور ہمارے دلی تعاون کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا گیا‘ اوپر سے ہمارے وزراء کا نہ اعلان کیا جا رہا ہے نہ کوئی ور جواب دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکمران دو ٹوک بات کریں‘‘ لیکن وہ ہمارے بارے میں ہی کوئی دو ٹوک بات نہیں کر رہے تو ڈرون حملوں بارے کیا کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ ''امریکہ پاکستان میں امن نہیں چاہتا‘‘ اور امن کے اس گہوارے کو بے امنی میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں جامعہ نعیمیہ کے ضلعی ناظمین سے خطاب کر رہے تھے۔
ڈالروں اور عزتِ نفس میں سے
ایک کو چُننا ہوگا... چودھری نثار
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار احمد خاں نے کہا ہے کہ ''ڈالروں اور عزتِ نفس میں سے ایک کو چُننا ہوگا‘‘ جس کے لیے ٹاس پر فیصلہ کیا جائے گا؛ تاہم یہ تو سب کہنے کی باتیں ہیں‘ ہم چاہتے ہیں کہ ڈالر بھی ملتے رہیں اور عزتِ نفس بھی باقی رہے کیونکہ اگر اب تک اتنے ڈالر لینے کے بعد بھی عزتِ نفس کو کچھ نہیں ہوا تو اب اس بارے پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''امریکہ ہمارا دوست نہیں‘‘ دشمن ہے اور اس کی یہ دشمنی بھی ہمیں جان سے پیاری ہے لہٰذا میرے بیانات کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیا جائے کیونکہ یہ سب کچھ عوامی کھپت کے لیے ہوتا ہے‘ اور اسی لیے وزیراعظم صاحب نے مجھے گرما گرم بیانات دینے پر لگا رکھا ہے اور خود برف میں لگے رہتے ہیں تاکہ ع
باغباں بھی خوش رہے‘ راضی رہے صیّاد بھی
کیونکہ عوامی جذبات کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور امریکی جذبات کا بھی‘ اور نجات کی راہ بھی اسی میں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
پیپلزپارٹی کو پنجاب میں نئی حلقہ
بندیوں پر تحفظات ہیں... منظور وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی کو پنجاب میں نئی حلقہ بندیوں پر تحفظات ہیں‘‘ اور جو کچھ اپنے دور میں ہم کرتے رہے ہیں اس پر عوام کو جو تحفظ تھے‘ ان کا اظہار انہوں نے حالیہ عام انتخابات میں کردیا تھا اور ہم خاموش اس لیے بھی رہے کہ اب دوسروں کی باری تھی اور ہمیں اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ دونوں پارٹیوں کا مقصد عوامی خدمت ہے جو ہم اپنے انداز میں کرتے ہیں اور وہ اپنے طریقے سے‘ اور عوام کی حالت سے جس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور اب تو وہ بھی اس کے عادی ہو چکے ہیں اور بجا طور پر اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر دونوں کو خدمت کا موقع دیتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''تحفظات کے باوجود عوام ان انتخابات میں حصہ لیں گے‘‘ کیونکہ اس کے ذریعے بھی عوام کی بھرپور خدمت کا موقع ملے گا جس کے نادر طریقوں کا ماہر ہم سے زیادہ اور کون ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت سفارتی محاذ پر بھی ناکام ہو چکی ہے‘‘ اور یہ بات کئی سفیروں نے مجھے خود بتائی ہے بلکہ اکثر باتوں کا تو مجھے اپنے آپ ہی پتہ چل جاتا ہے جو صرف خاکسار کی چلہ کشی کا نتیجہ ہے۔ آپ اگلے روز کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
سہ ماہی ''اجراء‘‘ کراچی
کتابی سلسلہ ''اجراء‘‘ کا تازہ شمارہ احسن سلیم کی ادارت میں شائع ہو کر مارکیٹ میں آ گیا ہے۔ قریباً 600 صفحات کو محیط اس ''صحت مند‘‘ رسالے کی قیمت 400 روپے رکھی گئی ہے۔ مضامین‘ نظم‘ نثر معمول کے مطابق ہیں۔ اس شمارے میں چھپنے والی معصومہ شیرازی کی ''چہرہ‘‘ کے عنوان سے یہ خوبصورت نظم دیکھیے جو پہلے بھی کہیں میرے مطالعے میں آ چکی ہے اور جس کا شاید میں ذکر بھی کر چکا ہوں:
کم سنی کی باہوں میں
جھولتا حسیں چہرہ
آج تک نگاہوں میں زیرِ آب رہتا ہے...
جس کے ہاتھ ماضی کی گونجتی حویلی کے
قُفل کھول دیتے ہیں!
جس کے ذکر کی برکھا
سوچ کی زمینوں پر ٹوٹ کر برستی ہے!
دل کے زرد کاغذ پر سرخ روشنائی سے
اُس گلاب چہرے کے خدوخال لکھتی ہوں
جیسے سرد راتوں میں اونگھتی ہوئی کوئل
گھر تلاش کرتی ہے
جیسے پر کٹی چڑیا آندھیوں کے موسم میں
در تلاش کرتی ہے...
آج کا مقطع
ٹوٹا پڑا ہے آئینہ سا جا بجا‘ ظفرؔ
پھاٹک کے پاس جس جگہ پودا ہے پام کا