ہمارے بعض دوست عمران خان سے پیار کرنے کے باوجود اسے لمحہ لمحہ ضائع ہوجانے والا لیڈر قرار دیتے ہوئے اس پر باقاعدہ ترس کھا رہے ہیں۔ ہر شخص ہر لیڈر سے اختلاف کرنے کا حق رکھتا ہے لیکن اس کا کوئی اندازہ پیش از وقت اور غلط بھی ہو سکتا ہے ؛تاہم‘ عمران خان ایک وقت میں سب سے مقبول لیڈر کے طور پر ابھر رہا تھا اور اگر انتخابات غیر جانبدارانہ اور آزادانہ ہو جاتے تو وہ اس وقت پورے ملک کی قیادت کر رہا ہوتا لیکن بقول شخصے‘ انتخابات دوپہر تک تو غیر جانبدارانہ تھے اور اس کے بعد شام تک آزادانہ ہوتے رہے۔ ڈرون حملوں بارے بھی اس کی پالیسی سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن وقت بتائے گا کہ یہ اس کے لیے کس حد تک مفید ثابت ہوتی ہے کیونکہ امریکہ اور ڈرون حملوں کے خلاف شدید جذبات اس وقت پوری قوم کا متفقہ موقف ہے جو کہ عمران کے لیے غازی کا باعث بنے گا یا شہید کا۔ اگر خیبر پختونخوا کی حکومت اس کے ہاتھ سے جاتی بھی رہتی ہے تو بھی یہ بات اُسے ملک بھر میں مقبولیت کی بُلندیوں تک لے جائے گی۔ اور یہ زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے۔
اس کایا کلپ کا دوسرا سبب یہ ہو گا کہ صحیح قیادت کے حوالے سے ملک اس وقت شدید قحط الرجال کا شکار ہے۔جابجا وہی آزمائے ہوئے چہرے ہی نظر آ رہے ہیں جنہوں نے اس بدقسمت قوم کو اس حالت پر پہنچایا ہے اور ان سے گلو خلاصی کی کوئی صورت دُور دُور تک نظر نہیں آ رہی کیونکہ آبادی کا صرف ایک فیصد نام نہاد
طبقہ اشرافیہ کی شکل میں اس ملک پر اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ ملک کی واحد جماعت ہے جو جاگیردارانہ ذہنیت نہیں رکھتی بلکہ تیسرے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو آگے لانے کی سیاست کر رہی ہے ۔ لیکن بوجوہ اس کی دال نہیں گلنے دی جا رہی کیونکہ موجودہ بااثر طبقوں کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ بھی اس کے بارے میں تحفظات رکھتی ہے۔ سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اس قوم کے ساتھ مسلسل جھوٹ بولا جارہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا کہ سارا سیاسی کاروبار ہی جھوٹ پر چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ حکمران تسلیم کر رہے ہیں کہ کرپشن نے اس ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے حالانکہ کرپشن کی حوصلہ افزائی بھی خود انہی حکومتوں کاکارنامہ ہے۔
حق تو یہ ہے کہ اتنی لُوٹ کھسوٹ کے بعد بھی وسائل کے لحاظ سے آج بھی پاکستان حیرت انگیز حد تک مالا مال ہے۔ لیکن ان وسائل کو انتہائی بیدردی سے ان لوگوں کی طرف سے ہڑپ کیا جا رہا ہے جن کی اعانت کا بار اسی قوم کی بیوقوفیوں نے ان کے کندھوں پر ڈال رکھا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاتھ میں کشکول ہے اور اس گلوبل گائوں میں ہم گلی گلی بھیک مانگتے پھرتے ہیں‘ اور ‘ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل کرنے کے
نام پر حاصل کی جانے والی اس بھیک کا زیادہ تر حصہ انہی بھیڑیوں کے معدوں میں چلا جاتا ہے۔
چنانچہ ملک پر کسی بھی وقت ناقابلِ رفت ہونے کا مرحلہ آ سکتا ہے لیکن یہاں کسی کو اس کی پروا اس لیے نہیں ہے کہ کسی کا یہاں کوئی سٹیک ہی نہیں ہے۔ ان کی جائیدادیں اور اثاثے باہر کے ملکوں میں ہیں اور ان کے بچے یا وہاں زیر تعلیم ہیں یا انہوں نے وہاں پراپنے اپنے کاروبار کر رکھے ہیں۔ چنانچہ اگر ملک پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ سب جہازوں میں بیٹھ کر رفو چکر ہو جائیں گے۔ مال پانی انہوں نے اتنا جمع کر لیا ہے کہ تاقیامت ان کی نسلوں کے لئے کافی ہو گا۔ حکمرانوں کی بے تدبیریوں کی داستان طویل بھی ہے اور ناقابلِ بیان بھی۔ عوام جنہیں یہ کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں، غربت کی لکیر سے نیچے جانوروں سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں، حتیٰ کہ دنیا کی سب سے سستی چیز، صاف پانی بھی اکثریت کو دستیاب نہیں ہے۔ بھوک پیاس کا عالم یہ ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب عوام ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھانے پر بھی مجبور ہو جائیں گے۔ وسائل کا جو زیر زمین خزانہ موجود ہے یا تو اُسے برآمد ہی نہیں کیا جا رہا وہ بھی بندر بانٹ کا حصہ بن جاتا ہے۔ ادارے تباہ و برباد ہو چکے ہیں اور منافع بخش ادارے بھی سفید ہاتھیوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ بیورو کریسی‘ جس کا اس تباہی میں برابر کا حصہ ہے‘ کو لگام دینے والا کوئی نہیں کیونکہ زیادہ تر لوٹ مار انہی کے وسیلے سے بروئے کار آتی ہے۔ اور ‘ آوے کا آوا ہی بگڑنے کی اصطلاح ہمارے بدنصیب ملک ہی کے حوالے سے سچ ثابت ہو رہی ہے۔
یہ قوم تو روز اول ہی سے کسی مسیحا کے انتظار میں ہے اگرچہ ہر بار جو بھی اوپر آتا ہے مسیحائی ہی کا دعویٰ کر کے آتا ہے اور بالآخر وہی کچھ کر کے چلا جاتا ہے جو اس سے مخصوص ہے اور باقی کا کام آنے والوں پر چھوڑ جاتا ہے اور یہ شیطانی چکر ہمیشہ کی طرح جاری و ساری رہتا ہے حتیٰ کہ ہم بحیثیت ایک قوم کے بین الاقوامی برادری میں نہ صرف تنہا بلکہ مذاق بن کر رہ گئے ہیں، سبز پاسپورٹ کی کوئی وقعت باقی نہیں رہی، ہمارے کرتا دھرتا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور وقت کی بلّی سے بے خبر جو کسی بھی قوت اُن پر جھپٹ سکتی ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ ہم امریکہ اور بھارت سے مطالبہ تو کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ برابری کی سطح پر بات کی جائے لیکن اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے‘ حالانکہ کوئی بھکاری مُلک ہی ہمارے ساتھ برابری کی سطح پر بات کر سکتا ہے۔ ہمارے سیاستدان لیڈر کم لگتے ہیں اور جوکر زیادہ اور ہماری سیاست محض سیاست کی پروڈی ہے اور ہم سب مٹی کے مادھو۔ اور ‘اگر ہم نے کسی حملہ آور ملک کا غلام ہی ہو کر رہ جانا ہے تو پہلے بھی ہم کونسی آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ع عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔
بات عمران خان سے شروع ہوئی تھی اور پانی کی طرح اپنا راستہ خود تلاش کرتی گئی۔ اس سے تو کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ ملک کو صحیح معنوں میں ایک نجات دہندہ کی ضرورت ہے‘ دوسرا وہ عمران خاں کے علاوہ بھی کوئی مخلص بندہ ہو سکتا ہے کیونکہ اللہ کی مدد سے ایک آدمی نے ہی اسے بنایا تھا اور کوئی آدم زاد ہی ملک اور قوم کو اس بھنور سے نکال بھی سکتا ہے‘ ورنہ ہمارے کرتوتوں کی سزا تو ہمیں ملنی ہی ہے۔ چنانچہ ہمیں ہر صورت تیار رہنا ہو گا‘ نجات کے لئے بھی اور عقوبت کے لئے بھی‘ کیونکہ جوقومیں ماضی میں صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئیں‘ وہ بھی کم بیش ہمارے ہی جیسی تھیں!
آج کا مقطع
اُن کا برتائو ہی بُرا ہے‘ ظفر
ویسے وہ آدمی تو اچھے ہیں