پاکستان مہذب جمہوری ملک ہے یا نہیں‘
فیصلہ ہو جائے گا...نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ ''پاکستان مہذب جمہوری ملک ہے یا نہیں‘‘مشرف کیس میں فیصلہ ہو جائے گا، کیونکہ صرف 3نومبر کے اقدام پر مقدمہ قائم کیا ہی اس لیے گیا ہے کہ عدالت انہیں باعزت بری کر کے ملک کے مہذب اور جمہوری ہونے کی تصدیق کر سکے جبکہ ریمنڈ ڈیوس کو نہ چھوڑنے کے دعوے کرتے رہنے کے باوجود اسے باعزت بری کر دیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ ''فیصلے کی ذمہ دار عدالت ہے اور عدالتیں آزاد ہیں‘‘ کیونکہ اب وہ وقت نہیں جب بینظیر اور زرداری کو کسی طور سزا دلوائی گئی تھی‘ویسے بھی اب بدقسمتی سے کسی سیف الرحمن کی خدمات حاصل نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز اوکاڑہ میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
ملک میں انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں...شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ملک میں انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں‘‘لیکن حیرت ہے کہ الیکشن میں دھاندلی جیسی چیزوں کی بھی کوئی گنجائش نہ ہونے کے باوجود یہ سارا کچھ ہو رہا ہے جس پر ہم صرف حیران ہو سکتے ہیں کیونکہ حکومت میں آنے کے بعد جب ہم نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آیا تھا‘ حتیٰ کہ اب بھی وہی کیفیت ہے اور ہمیں یہ مجبور و معذور حکومت ہی نظر آ رہی ہے اور یہ بھی بسا غنیمت ہے کیونکہ اگر یہ بھی نظر نہ آتی تو ہم کیا کر سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام کو معاشی مشکلات سے نکالیں گے ‘‘اسی لیے کئی طرح کے کاروبار حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں اور ہماری حالتِ زار دیکھ کر لاکھوں کروڑوں کی سب سڈی بھی دی جا رہی ہے اور ان اشیاء کی قیمتیں پھر بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں تو کسی کو باتیں کرنے سے روکا نہیں جا سکتا کیونکہ جمہوریت کا زمانہ ہے اور آزادیِ اظہار پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ باتیں باتیں ہی ہوتی ہیں وہ آسمان سے کی جائیں یا کسی فرد سے۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھے امید ہے کہ نوجوان اندھیروں میں شمع جلائیں گے‘‘اور انہیں یہ قرضے زیادہ تر شمعوں کی خریداری کے لیے ہی دیے جا رہے ہیں۔ جبکہ اندھیرے ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود پھیلتے جا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز کیڈٹ کالج حسن ابدال میں خطاب کر رہے تھے۔
ڈکٹیٹروں کو حساب دینا ہو گا‘
بھاگنے نہیں دیں گے...زرداری
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''ڈکٹیٹر کو بھاگنے نہیں دیں گے‘پورا حساب لیں گے‘‘ کیونکہ ہم نے بھی اسے بھاگنے نہیں دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم جو آپ کو پورے اعزاز کے ساتھ رخصت کر رہے ہیں تو آپ کو بھاگنے کی کیا ضرورت ہے اور جہاں تک حساب کا تعلق ہے تو ہم خود سارے حساب بیان کر چکے ہیں‘...سوئس عدالت والے 60لاکھ ڈالر ‘ جن کے بارے میں خود ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کونسے اکائونٹ میں چلے گئے کیونکہ ماشاء اللہ اکائونٹ ہی اتنے ہیں کہ ان کا حساب ہی نہیں رکھا جا سکتا اور جب خدا کی مہربانیاں ہی بے حساب ہوں تو اُن کا حساب رکھنا بجائے خود کُفرانِ نعمت کے مترادف ہے اور جو چیز چھپر پھاڑ کر دی گئی ہو‘ اس کا حساب کوئی بندہ بشر کیسے رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی‘‘ کیونکہ گزشتہ پانچ سال تک ہم عوام کے خلاف جنگ میں بے حد مصروف رہے ہیں جس سے اب تھوڑی فرصت ملی ہے چنانچہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے لیے ہم پوری طرح دستیاب ہیں اور عوام کے خلاف جنگ کی طرح اسے بھی کامیاب کر کے دکھائیں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بھٹو کی سالگرہ پر بیان جاری کر رہے تھے۔
ہوا پتے گرائے گی
ہمارے دوست گلزار بخاری کا یہ مجموعہ بالآخر منظر عام پر آ گیا ہے جو 1972ء تا 1982ء کے کلام پر مشتمل ہے ۔ یہ ہمارے ایک اور شاعر دوست ستار سید کے بھائی بھی ہیں بلکہ انتساب سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتقال کر جانے والے ان کے دوسرے دو بھائی طاہربخاری اور فیروز بخاری بھی شاعر تھے جن کا کلام زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکا‘اس طرح انہوں نے چاروں بھائیوں کے شاعر ہونے کا نذیر ناجی کا ریکارڈ توڑا تو نہیں‘لیکن برابر ضرور کر دیا ہے ۔ ع
اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ
سرورق کی آراء عباس تابش‘نجیب احمد اور ستار سید نے تحریر کی ہیں جن میں شاعر کے کلام کی توصیف کی گئی ہے۔ کتاب امیر پبلی کیشنز لاہور نے چھاپی ہے جس کی قیمت 300روپے رکھی گئی ہے۔ کتاب میں نظمیں بھی شامل ہیں لیکن وہ کم و بیش سب کی سب پابند ہیں جبکہ یہ آزاد بلکہ نثری نظموں کا زمانہ ہے اور پابند نظم ویسے ہی عجیب سی لگتی ہے۔ سرورق پر معتبر شعراء نے شاعر کی تعریف کی ہے‘اگرچہ جدید غزل بہت آگے جا چکی ہے‘تاہم اس شاعری کے پڑھنے اور پسند کرنے والے بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ آپ ان کے شعر دیکھیے جو مجھے اچھے لگے ہیں ؎
اُڑان جب تری جانب ہو‘ خوف رہتا ہے
اُلجھ ہی جائیں نہ آپس میں بال و پر میرے
بچھڑ کے تُجھ سے میں خود کو سنبھال بھی نہ سکوں
نہ اس قدر بھی خدارا قریب آ میرے
جی لگانے میں کہاں آسانیاں پیدا ہوئیں
اور بھی کارِ محبت کو محال اُس نے کیا
نام تیرا سرِبازار نہیں لے سکتے
ذکر تیرا پسِ دیوار تو کر سکتے ہیں
اس کے لیے جو تم نے کیا‘ سب کو علم ہے
اس کے مکین ہم بھی ہیں‘گھر ہم پہ چھوڑ دو
رنگ بھرتا تھا ترے قُرب کا موسم جن میں
وہ شب و روز عجب آب و ہوا رکھتے تھے
یہ شاعری بالعموم بے عیب ہے‘ تاہم کچھ بچگانہ سی غلطیاں بھی ہیں‘ مثلاً صفحہ 128پر یہ مصرعہ ع
بڑھانہ شر کے گریباں کی طرف کوئی ہاتھ
اس میں لفظ''طرف‘‘ درست وزن پر نہیں باندھا گیا ‘ طرف کی بجائے اگر لفظ ''سمت‘‘ ہوتا تو مصرعہ بے وزن نہ ہو تا۔
آج کا مقطع
راہ میں راکھ ہو گئیں دھوپ کی پتّیاں ‘ظفر
آنکھ بکھر بکھر گئی اپنی ہی آب و تاب سے