یہ سوغات اوسلو، ناروے سے آئی ہے جسے میں پیش کرنے جارہا ہوں؛ بلکہ آئی کیا فرمائش کرکے منگوائی گئی ہے۔ جو اچھا مال تھا، فیصل ہاشمی نے الگ باندھ کے رکھا ہوا تھا۔فیصل اسی سال ، کسی وقت بھی پاکستان آسکتے ہیں؛اگرچہ وہیں بہت خوش ہیں، فون پر اس کے ساتھ رابطہ اکثر رہتا ہے اور وہ اپنی کارستانیوں سے بھی آگاہ کرتا رہتا ہے جن میں شاعری کے علاوہ تنقید نگاری بھی شامل ہے۔ وہ صرف نظم لکھتا ہے، میں نے اس کی وجہ نہیں پوچھی کیونکہ مجھے بھی اس کا جواب دینا پڑے گا کہ میں صرف غزل کیوں لکھتا ہوں۔ یہ ان درپردہ سمجھوتوں میں سے ایک ہے جو ہماری زندگی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
شاید کہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میں نے ایک زمانے میں نظمیں بھی لکھی تھیں جو غزلوں کے ساتھ مختلف پرچوں میں شائع ہوتی رہیں بلکہ ایک پورے مجموعے کی صورت میں جمع بھی کررکھی تھیں کہ میرے دوست افتخار جالب نے یہ کہہ کر اپنی تحویل میں لے لیں کہ یہ آپ سے گم ہوجائیں گی،لیکن لطف یہ ہے کہ اس نے بھی نقل مکانی وغیرہ کے دوران کہیں گم کردیں اور بعد میں مجھے انہیں دوبارہ یکجا کرنے کی توفیق نہ ہوئی؛ اگرچہ وہ 'سویرا‘ ، ' لیل و نہار‘ اور' ارژنگ‘ (کراچی) وغیرہ سے اب بھی نقل کی جاسکتی ہیں۔ برادرم ڈاکٹر ضیاء الحسن نے اگرچہ مجھے یک فنی ہونے کا خطاب اپنے ایک مضمون میں دیا ہے لیکن اگر آدمی ایک فن ہی سے تھوڑا بہت انصاف کرسکے تو یہ بھی کیا کم ہے۔
میری دانست میں غزل اور نظم میں محض ہیئت ہی کا فرق نہیں طریقہ کار کا بھی ہے۔ دوسرے، غزل میں بالعموم محبوب اور دل کی بات ہوتی ہے جبکہ نظم میں شاعر زیادہ تر اپنے آپ سے مخاطب ہوتا ہے۔ غزل کے مقابلے میں نظم کی ایک سہولت یہ بھی ہے کہ اس میں کھل کر بات کی جاسکتی ہے۔ غزل کی نسبت بس وہی فرق ہے جو ایک منی ایچر اور میورل میں ہوتا ہے۔ پھر نظم کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ جس آسانی سے ہوسکتا ہے غزل کا ہرگز نہیں، کیونکہ غزل کی اپنی پابندیاں اور حدود و قیود ہیں؛ البتہ غزل کا ایک شعر وہ جادو جگا سکتا ہے جو شاید نظم کے پچاس مصرعوں ہی سے ممکن ہوسکتا ہو۔ بہرحال دونوں کی اپنی اپنی سہولتیں بھی ہیں اور مشکلات بھی۔اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ غزل کا زیادہ تر تعلق دل سے ہوتا ہے جبکہ نظم کو دل اوردماغ دونوں کی مدد حاصل ہوتی ہے۔
غزل اور نظم میں کشمکش بھی کوئی نئی بات نہیں؛اگرچہ یہ معاملہ صنفی یاہیئتی نہیں بلکہ نظم گو اور غزل گو دونوں کا آپس میں ہے۔غزل کی '' پسماندگی‘‘ کے ساتھ ساتھ نظم کو بجا طور پر ماڈرن بھی سمجھا جاتا ہے جبکہ غزل جیسی محیرالعقول چیز صرف ایران اور برصغیر میں ہی پائی جاتی ہے؛ تاہم غزل کا شعر اپنے اختصار کے حوالے سے نظم پر ایک Edge ضروررکھتا ہے کہ یہ ویسے بھی اختصارکا زمانہ ہے، نیز لوگوں کے پاس شعروادب کو دینے کے لیے وقت بھی روز بروز کم سے کم تر ہوتاجارہا ہے۔ مزید برآں، غزل کا شعر آسانی سے 'کوٹ‘بھی کیاجاسکتا ہے جبکہ نظم کے ساتھ یہ سہولت نہیں ہے اور اس کا صرف حوالے دیاجاسکتا ہے۔ پھر غزل کا مطلع پڑھ کر ہی آپ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ یہ غزل آپ نے پڑھنی ہے یا نہیں جبکہ نظم کے عیب و ہنر کا اس کے آخر پر ہی پتا چلتا ہے جبکہ آپ اپنا بہت سا وقت خرچ کرچکے ہوتے ہیں اور بعض اوقات آپ مایوسی سے بھی دو چار ہوتے ہیں۔
فیصل ہاشمی کی یہ نظمیں کیسی ہیں اور کن کن خوبیوں کی حامل ہیں یا اس کی کیا کیا خصوصیات ہیں، میں ان کے بارے میں کچھ بھی عرض نہیں کرسکتا کیونکہ یہ صرف نقاد کا کام ہے اور اوپر میں نے جو کچھ کہا ہے، یہ وہی باتیں ہیں جو میں اس ضمن میں کرتا رہتا ہوں اور میرے ان تاثرات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے؛ البتہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا جو عام طور پر کہی جاتی ہے کہ جو شاعر غزل نہیں کہہ سکتا وہ نظم کی طرف آجاتا ہے۔ بہرحال، دونوں کا اپنا اپنا مستقبل ہے جبکہ غزل کا اپنا ماضی بھی ہے اور ظاہر ہے کہ نظم سے میری مراد آزاد اور نثری نظم ہے۔ اس بیکار بحث کے بعد یہ نظمیں دیکھیے:
دُور صدیوں پرے
دُور...صدیوں پرے... اک خریدے ہوئے کرب میں مبتلا... جسم کے اس طرف... روح کی دُھند میں ... اپنے کاندھے پہ خود کو اٹھائے ہوئے... چیختا ہی رہا...'' میں یہاں ہوں یہاں‘‘ ...'' میں یہاں ہوں یہاں‘‘... کوئی سنتا نہ تھا... کتنا تنہا تھا میں... کتنا مجبور تھا... اور دعا کے اثر سے بہت دور تھا... مردہ خانے کی وحشت میں... روز ازل ہی سے محصور تھا!!
دو سفر
اس نے اپنی آنکھوں کے گرد ابھری ہوئی... ان ساری رگوں کو کھینچ کے مجھ سے کہا تھا... بیمار ہوں میں... اب کچھ ہی دنوں کی مہلت ہے... میں جو بمشکل سنبھل سنبھل کر ... سیٹ پہ بیٹھ سکا تھا... میں نے اس کے غم کے بھنور میں ڈوب کے... ہمدردی آنکھوں میں بھرلی... اپنی طرف متوجہ پاکر کہنے لگا وہ ...یہ جو دنیا میں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھی ہے ...اس کی اک اک یاد سہارا ہے اب دل کا ...لیکن کچھ پچھتاوے بھی ہیں ...جانتے ہو تم ...میری امی بڑی بھولی تھی...جو بھی کہتا جھٹ سے یقین کیا کرتی تھی...ابا سے تو بنی نہیں تھی، سخت تھے دل کے... لیکن مجھ سے پیار بہت کرتے تھے ... جب میں گھر سے چلا گیا تھا... کئی دنوں تک بستر سے وہ اٹھ نہ سکے تھے ...ہر آہٹ پر چونک کے کہتے ... وہ آیا ہے؟... باقی سارے بھائی بہن مجھ سے چھوٹے تھے ... ان سے کسی تعلق کی بھی... نشوونما نہیں ہوپائی تھی... کسی سیانے کا کہنا ہے... '' وقت گزرتے دیر کہاں لگتی ہے بھائی ‘‘... میں یہ جیون اپنے ڈھنگ سے جینا چاہتا تھا... کام ملا، پھر شادی کی... بچے بھی ہوئے... اب وہ بڑے ہیں... اپنی اپنی زندگیوں میں خوش ہیں، مگن ہیں!... سال ہوا بیوی کی رہی سہی سانسوں کا مخبر... موت کو گھر لے آیا تھا... بیٹا بیٹی کبھی کبھار آتے ہیں ملنے ... اتنی دیر میں بس والے نے اگلے سٹاپ کا نام پکارا ... اس نے کہا میں اتروں گا... وہاں سٹاپ سے ہٹ کر پچھلی گلی میں میرا گھر ہے ... دعا کروں گا... آپ کو خالق اپنے کرم سے راحت بخشے ... آج کئی برسوں کے بعد ... سفر ہے ویسا ہی ... اور کھچا کھچ بھری ہوئی ہے اسی طرح سے بس بھی ... ایک مسافر مجھ سے وہی کچھ ... یا پھر اس سے ملتی جلتی ایک تسلی دے کر... اتر گیا ہے بس سے !!
خاموشی کا شانت سمندر
کچھ لمحوں کے توقف سے پھر... جمی ہوئی تحریری شے پر... مخفی ضربیں لگنے لگی تھیں ... اور اس مشق سے ممکن تھا یہ ... صدیوں پرانی ... جسم اور روح کی ثنویت کو ... وقت معطل کردیتا... یہ اک ایسی صداقت تھی... جو فہم سے بالاتر تھی... اور جسے میں کوشش سے بھی ... دیکھ نہیں سکتا تھا... لیکن اس شے کے باطن میں ...لاتعداد شگاف پڑے تھے ... جن میں بے کیفی کی یکسانیت ... رینگ رہی تھی... اوپر کے تالاب کا پانی اچھل رہا تھا... محرابی چھت ٹوٹ رہی تھی... رات اور دن ... اک دوجے کی تشکیل کی لذت کھو بیٹھے تھے... جل کر راکھ ہوئے تھے... اتنی بڑی دنیا میں ہر سو... جتنے قرینے سجے ہوئے تھے... بکھرگئے تھے ... ایک عجیب حصار کھنچا تھا... اس متنفس بے پر کی محویت میں... کوئی نہتی چیخ ابھر کر ... سطح آب سے ٹکرائی تھی... ثنویت کا شیشہ چکنا چور ہوا تھا... اسی کے اک گیلے چابک سے... اس جسم پہ نیل پڑے تھے... صدیوں پر پھیلی بے انت سمادھی ٹوٹ گئی تھی... اور پھر اگلے ہی لمحے... خاموشی کا اک شانت سمندر ... میرے اندر ڈوب رہا تھا!!
اس شاعر کی مزید نظمیں میرے پاس موجود ہیں، وہ پھر کبھی سہی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی کچھ اور نظمیں بھی اس دوران موصول ہوجائیں کیونکہ میرا یہ تقاضا اس سے مستقل ہے!
آج کا مطلع
خبر نہیں سفرِخاک میں کہاں ہوں میں
کہیں اندھیرے اُجالے کے درمیاں ہوں میں