بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات
کے لیے پُر عزم ہیں: نواز شریف
وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ '' بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے لیے پُر عزم ہیں‘‘ البتہ بھارت کی صورت حال ذرا مختلف ہے، تا ہم ہمارے پُر عزم ہونے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ویسا ہی ہے کیونکہ جس کام کے بارے بھی پُر عزم ہونے کا اعلان کرتے ہیں وہ پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو جاتا ہے، لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جو کرنے والے کام ہیں، ان کے بارے میں پُر عزم ہونے کا اعلان ہرگز نہ کریں کیونکہ اب تو ہمیں لوگوں نے شرمندہ کرنا شروع کر دیا ہے بلکہ اس پر ہمارا مذاق بھی اُڑایا جاتا ہے اور جس کام کے بارے میں ایسا اعلان کرتے ہیں، لوگ اس کے متعلق واقعی پریشان اور مایوس ہو جاتے ہیں کہ اس کا انجام بھی وہی ہو گا جو ایسے کاموں کا ہوتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' بھارت کو اس کے یوم جمہوریہ پر مبارکباد پیش کرتا ہوں‘‘ اور اپنی جمہوریت کے لیے بھی دعا گو ہوں کہ کہیں واقعی طالبان کے گھاٹ نہ اُتر جائے جس کے امکانات روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور اور اسلام آباد سے بیان جاری کر رہے تھے۔
جنرل مشرف بند گلی میں پھنس گئے ہیں: پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ '' مشرف بند گلی
میں پھنس گئے ہیں‘‘ جہاں سے انہیں کوئی ہیلی کاپٹر ہی نکال کر لے جا سکتا ہے یا عدالت اس سلسلے میں ہماری مشکل آسان کر سکتی ہے اور ان کی روانگی کے لیے کاغذات وغیرہ بھی حفظِ ما تقدم کے طور پر بنانا پڑے ہیں جس پر وزیراعظم نے انتہائی مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا ہے کیونکہ اگر کسی ڈیل کے تحت میاں صاحب باہر جا سکتے ہیں تو اس کا موقعہ جنرل صاحب کو بھی ملنا چاہیے کیونکہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں جبکہ خاص آدمی تو خاص طور پر برابر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' وہ خود کو قانون کے حوالے کر دیں‘‘ ورنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قانون بالآخر خود ان کے حوالے ہو جائے کیونکہ ملک عزیز میں قانون بھی پانی کی طرح اپنا راستہ خود بناتا ہے، حتیٰ کہ سیاست بھی اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' سابق صدر کی صرف سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کمزور ہے‘‘ جو وزیراعظم صاحب سوچنے سمجھنے کی فالتو طاقت خود بھی دے سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات
کرنے کی ضرورت ہے: منظور وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خان وٹو نے کہا ہے کہ ''دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے‘‘ جس طرح ہم نے گزشتہ پانچ سالوں میں عوام کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھائے رکھے کیونکہ وہ ان کے عادی ہو چکے ہیں اور اسی عادت کی وجہ سے ہمیں اگلی بار پھر برسر اقتدار لے آئیں گے تاکہ ہم ایک بار پھر اپنی عادات کا بھرپور مظاہرہ کر سکیں کیونکہ اب عوام خود بھی اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں کہ جمہوریت میں یہی طریق کار اختیار کیا جاتا ہے جو جمہوریت کا اصل حسن بھی ہے اور اگر عوام کو اس سے اختلاف بھی ہو تو اگلے پانچ سال تک وہ اسے کیسے یاد رکھ سکتے ہیں کیونکہ ان کی دیگر کمزوریوں کے ساتھ ان کی یادداشت بھی کمزور ہو چکی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ''مسلم لیگ ن کی حکومت نے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا‘‘ جبکہ ہم تو عوام کو سب کچھ دینا چاہتے تھے لیکن جب اس کا موقعہ آتا تو ہمارا ہاسا نکل جاتا تھا۔ آپ اگلے روز لاہور سے اپنا معمول کا بیان جاری کر رہے تھے۔
پیشین گوئی
بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ نے کرکٹ کی دنیا پر قبضہ کرنے کا جو پروگرام بنایا ہے، اگرچہ چیئرمین پی سی بی نے اعلان کیا ہے کہ ہم پاکستان کا مفاد دیکھ کر اس بارے فیصلہ کریں گے جبکہ زیادہ آسان یہی ہے کہ پاکستان بھی بنگلہ دیش کی طرح اس دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا کیونکہ ایک تو وزیراعظم آئے دن بھارت کے صدقے واری جاتے نہیں تھکتے اور دوسرے بعض اطلاعات کے مطابق بھارت کو بہت جلد انتہائی پسندیدہ ملک بھی قرار دیا جانے والا ہے۔ اگرچہ یہ خطرہ اپنی جگہ پر موجود ہے کہ بھارت اپنا کام نکال کر ہمارے ساتھ اپنا روایتی سلوک ہی برقرار رکھے گا اور ہمیں اس میدان سے مکھن میں سے بال کی طرح نکال باہر پھینکے گا لیکن یہ بھی معمولی بات ہو گی کیونکہ کرکٹ تو وہی تھی جو وزیراعظم صاحب اپنی مرضی کا امپائر رکھ کر باغ جناح میں کھیلا کرتے تھے، اور کبھی آئوٹ نہیں ہوتے تھے۔ علاوہ ازیں باہمی تجارت کے لیے واہگہ بارڈر کا راستہ اگر روزانہ کے لیے کھل گیا ہے تو اس صورت میں بھی بھارت کو ناراض کیونکر کیا جاسکتا ہے، لہٰذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
متبادل انتظام
جہاں انجیو گرافی کے لیے جنرل مشرف کی طرف سے دو امریکن ڈاکٹروں کے ساتھ رابطہ کر لیا گیا ہے وہاں ایک اُڑتی ہوئی خبر یہ بھی ہے کہ صاحبِ موصوف کے پسندیدہ ڈاکٹر پاکستان آ کر ان کی انجیو گرافی وغیرہ کریں گے۔ اگرچہ اصل مسئلہ یہ بھی ہے کہ عدالت حاضری کے ذکر پر ہی موصوف کی علالت میں اضافہ ہو جاتا ہے جو کہ نہایت تشویش ناک بات ہے اور اس میں صاحبِ موصوف کا کوئی قصور نہیں ہو سکتا کیونکہ طبیعت اور بیماری پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا اور یہ محض اللہ تعالیٰ کے کام ہیں۔ علاوہ ازیں، اگر کچھ بھی ہو سکے اور عدالت ان کی حاضری پر اصرار ہی کرے تو اس کا آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ عدالت خود ہسپتال جا کر ان کا بیان ریکارڈ کر لے اور اسی طرح ہر پیشی پر یہی طریق کار اختیار کیا جا سکتا ہے اور اس سے عدالت کی صحت پر بھی کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ عدالت بہر حال عدالت ہے اور ملک کے بہترین مفاد میں وہاں جا کر بھی اس فرض سے عہدہ بر آ ہو سکتی ہے۔
آج کا مطلع
پہلے یہ گلہ تھا کہ محبت نہیں ملتی
اور اب یہ شکایت ہے کہ فرصت نہیں ملتی