ایک شخص کی کسی کے ساتھ لڑائی ہوگئی جس نے مُکا مار کر اس کے دو دانت توڑ دیئے۔ اُس کے ایک دوست کو پتہ چلا تو وہ اظہارِ ہمدردی کے لیے چلا آیا جس پر وہ بولا:
''کوئی لڑائی نہیں‘ صرف تُوتکار ہوئی تھی‘‘۔
''اور یہ تمہارے اگلے دو دانت؟‘‘ دوست نے حیران ہو کر کہا تو اس نے جواب دیا۔
''یہ تو میں نے پہلے ہی نکلوا دینے تھے‘‘۔
کون نہیں جانتا کہ ہم اس وقت دہشت گردوں‘ جنہیں طالبان بھی کہا جاتا ہے‘ کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں لیکن حکومت اگر اسے تُوتکار ہی سمجھتی ہے تو اُسے اپنے شکستہ دانتوں پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس قوم کے ساتھ کبھی سچ نہیں بولا گیا۔ اگرچہ وزیراعظم نے اپنے طویل سوچ بچار کے بعد فریقِ مخالف کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے تو اسے بھی اتمامِ حجّت ہی سمجھنا چاہیے بلکہ مزید اتمامِ حجّت‘ کیونکہ بقول صدر ممنون حسین‘ حکومت حجّت تو پہلے ہی تمام کر چکی ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ طالبان نے بھی مذاکرات پر آمادگی کا مظاہرہ کر کے حجّت ہی تمام کی ہے اور حکومت کے نہلے پر دہلا ہی مارا ہے کیونکہ حکومت کی طرح وہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ مخولیہ مذاکرات اگر ہو بھی گئے تو ان سے کوئی نتیجہ ہرگز نہیں نکلنے والا‘ اور اس کے بعد جو کچھ ہونا ہے‘ وہ اس کے لیے بھی تیار ہیں۔
سو‘ اگر تو چار معزز ارکان کی یہ جائزہ کمیٹی ہے کہ یہ معلوم کرے کہ طالبان واقعی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو اس کی ضرورت ہی سرے سے نہیں تھی کیونکہ اس پر وہ اپنی رضامندی کا اظہار تو تیسری چوتھی بار کر ہی چکے تھے۔ اور اگر باقاعدہ مذاکرات بھی انہی حضرات نے کرنا ہیں تو یہ کمیٹی غیر متوازن محسوس ہوتی ہے۔ اس میں دوسرے شعبوں سے بھی نمائندے لیے جانے چاہئیں تھے؛ چنانچہ یہ بھی گونگلوئوں پر سے مٹی جھاڑنے ہی کی ایک مشق ہو کر رہ گئی لگتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ طالبان یہ حتمی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ نہ تو آئین پاکستان کو مانتے ہیں نہ اس جمہوری نظام کو۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے ساتھ مذاکرات کس بات پر کیے جا رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس ضمن میں دونوں فریق ایک دوسرے کو کوئی رعایت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جبکہ مذاکرات ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہی ہوتے ہیں؛ چنانچہ حکومت کے پاس تو اس صورتِ حال میں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ نہ تو وہ آئین پر کوئی سمجھوتہ کر سکتی ہے نہ اس نظام پر‘ حالانکہ نہ تو یہ کوئی جمہوریت ہے نہ ہی آئین پر صحیح عمل ہو رہا ہے۔ خیر‘ یہ ایک الگ بحث ہے۔
طالبان کی نیت تو یہ ہے کہ وہ اس ملک پر قبضہ کر کے اس پر اپنی پسند کا اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ وزیراطلاعات پرویز رشید صاحب کو یہ فکر لگی ہوئی ہے کہ وہ ہمارا لباس اور شکلیں ہی تبدیل کرنے کے در پے ہیں اور جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں نہ صرف داڑھیاں چھوڑنی پڑیں گی بلکہ اگر چوغہ نہیں تو کُرتا شلوار پر گزارا کرنا ہوگا۔ اگرچہ ان کے دور میں جو کچھ ہوگا اور جو تبدیلیاں آئیں گی‘ اس پر تفصیل کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے یعنی بات صرف داڑھیوں اور کُرتے شلواروں تک محدود نہ رہے گی۔
اور جہاں تک کچھ لو اور کچھ دو کا تعلق ہے تو شاید طالبان فی الحال اُس علاقے پر قناعت کر لیں جہاں وہ رہائش پذیر ہیں اور جہاں حکومت کی رِٹ پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ڈیورنڈ لائن پہلے ہی ایک کمزور سی لکیر ہی کی حیثیت رکھتی ہے اور افغانستان حکومت اور اس کے عوام اسے تسلیم ہی نہیں کرتے؛ چنانچہ اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو یہ محض ایک ابتدا ہوگی‘ اور ان کے مقصدِ عظیم کی طرف پہلا قدم‘ اور جس کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ ہم اپنا آئین ان کی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکتے کیونکہ اس صورت میں اس کا حلیہ ہی تبدیل ہو کر رہ جائے گا اور ہماری طرف سے سب سے بڑا اعترافِ شکست بھی۔
اس صورتِ حال میں کسی کامیاب یا نتیجہ خیز مذاکرات کا وقوع پذیر ہونا دیوانے کے خواب سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا اور یہ رسم پوری کرنے کے بعد آپریشن ہی کے آپشن کی طرف آنا پڑے گا۔ پھر‘ امریکہ جو اس جنگ کا پس پردہ سب سے بڑا کھلاڑی ہے وہ اس دوران صرف تماشا دیکھے گا اور اپنی بوئی ہوئی فصل ہی کاٹ رہا ہوگا جبکہ اس دوران فوج کو سب سے بڑا محاذ تقریباً خالی چھوڑنا ہوگا۔
چنانچہ یہ صورت حال اور لاینحل مسئلہ ہماری حکومتوں کی اپنی بے تدبیریوں کا شاخسانہ ہے جبکہ موجودہ حکومت ماشاء اللہ جس ویژن سے آراستہ ہے اور اس نے پچھلے سات آٹھ ماہ کی بے عملی سے معاملہ جس حد تک خراب کر لیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ حکومت کاروباری اسرار و رموز پر تو حیرت انگیز دسترس اور مہارت رکھتی ہے اور جو اس کا اصل کام بھی ہے جبکہ پرویز مشرف کے مقدمے کی طرح یہ چھچھوندر اس سے نہ نگلی جا رہی ہے نہ اُگلی۔ اور برخوردار بلاول بھٹو زرداری جو اُچھل اُچھل کر آپریشن کی دہائی دے رہے ہیں تو ان سے پوچھنا بنتا ہے کہ اس آپشن کے بارے میں موصوف نے اپنے ابا جان سے کیوں نہ کہا جو پانچ سال تک سفید و سیاہ کے مالک رہے ہیں!
سو‘ طالبان جو نہ صرف مسلسل دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے ساتھ اس کی ذمہ داری اور کریڈٹ بھی لیتے رہتے ہیں‘ انہوں نے اپنی اور ہماری طاقت کا اندازہ کر کے ہی یہ رویہ اختیار کر رکھا ہے‘ اور مذاکرات کے اس ڈرامے کے فلاپ ہونے پر وہ اپنی کارروائیوں کا دائرہ کہیں تک بھی پھیلا سکتے ہیں جبکہ مذاکرات پر آمادگی بھی انہوں نے ان عناصر کی ہمدردیاں برقرار رکھنے کے لیے ظاہر کی ہے جو ان کے لیے پہلے ہی نہ صرف نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی ہیں؛ چنانچہ آپریشن کی صورت میں اس ملک میں جو تماشا لگے گا وہ شاید ہمارے خدشات سے کہیں بڑھ کر ہوگا۔
آج کا مطلع
رہ جاتی ہے بس بیچ میں ہی بات ہماری
کچھ اس سے زیادہ نہیں اوقات ہماری