"ZIC" (space) message & send to 7575

ممولے کا انتظار اور اصغر ندیم سیّد

آج کل علامہ اقبال کا یہ مصرعہ ع 
لڑا دے ممولے کو شہباز سے 
مجھے اکثر یاد آتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک ممولے کے ساتھ میری بھی روز کی ملاقات جاری ہے۔ میں جب باہر نکل کر دھوپ سینکنے کے لیے راہداری میں بیٹھتا ہوں تو لان میں بائیں طرف ایک ممولہ بھی چگتا ہوا نظر آتا ہے۔ پتہ نہیں یہ ممولا ہے یا ممولی‘ کیونکہ پرندوں کے حوالے سے یہ تشخیص ذرا مشکل ہے۔ ماسوائے چڑیا چڑے کے۔ شاید شدید دُھند کی وجہ سے موصوف دو دن سے غائب ہیں اور میں نے اس غیر حاضری کو باقاعدہ محسوس کیا ہے۔ 
میں کچھ دنوں سے شہر سے باہر یعنی فارم ہائوس پر ہوتا ہوں اور دوستوں سے بھی دور ہو گیا ہوں۔ کل شاعر ناصر علی کا فون آیا کہ مظفر آباد سے احمد عطاء اللہ آئے ہوئے ہیں اور ملاقات کے شدید خواہشمند ہیں‘ بتایئے ہم لوگ کب آئیں۔ میں نے کہا کہ اتنی دور آپ کیسے آئیں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ پتہ بتا دیجیے‘ ہم پہنچ جائیں گے۔ فارم ہائوس میرے لیے ایک بہت بڑی نعمت سے کم نہیں؛ چنانچہ میں اس پر فخر کم اور اللہ تعالیٰ کا شکر زیادہ کرتا ہوں۔ اور اس کا ذکر اس لیے بھی کرنے میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا کہ چھپایا اُن اثاثوں کو جاتا ہے جو دو نمبر کی کمائی سے بنے ہوں جبکہ اس کا باقاعدہ ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔ اس گھر کا خواب آفتاب کی والدہ نے دیکھا تھا‘ جسے تعبیر اس نے عطا کی لیکن انہیں اسے اپنی زندگی میں مکمل دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ یہاں پر بالعموم نوکر چاکر ہوتے ہیں اور میں۔ آفتاب صرف فراغت کے دنوں میں میسر آتے ہیں۔ اس کے بچے شہر میں ہوتے ہیں‘ حالانکہ میری دانست میں ایسی عمدہ رہائش گاہ میں نہ رہنا کفرانِ نعمت سے کم نہیں ہے۔ 
جن لوگوں کو لکھنے کی بیماری لاحق ہے وہ اکیلے ہوں بھی تو اپنے آپ کو تنہا محسوس نہیں کرتے۔ صبح چاروں طرف ہریالی‘ پرندے اور دور کے دیگر نظارے ایک عجیب کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ البتہ میں بچوں سے دور ہو گیا ہوں اور ان سے بھی روز کا ملنا موقوف ہو چکا ہے۔ بچے یوں تو سارے کے سارے ہی آپ کے جگر کے ٹکڑے ہوتے ہیں لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے اللہ میاں نے دل میں کچھ زیادہ ہی محبت بھر رکھی ہوتی ہے۔ مثلاً آفتاب کی بڑی بیٹی عائشہ جو آج کل لندن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے‘ پچھلے دنوں کچھ روز کے لیے آئی تھی اور مزید اُداس کر کے چلی گئی۔ اسی طرح منجھلے بیٹے اویس کا چھوٹا بیٹا حسنین۔ واحد بیٹی کی چھوٹی بیٹی نور اور سب سے چھوٹے بیٹے جنید کا چھوٹا بیٹا ارسل عرف اچھو میاں‘ جو خاندان بھر کا سب سے لاڈلا بچہ ہے۔ اس لیے بھی کہ وہ عمر میں سب سے چھوٹا ہے۔ عمر آٹھ سال کے قریب اور پرلے درجے کا حاضر جواب اور شرارتی۔ موصوف کا تازہ ترین معرکہ یہ ہے کہ پچھلے دنوں اپنے ایک ہم جماعت دوست سے بولا کہ میں تو اپنے پاپا کے ساتھ فائٹنگ کرتا ہوں۔ خوب مُکے بازی ہوتی ہے اور بہت مزہ آتا ہے‘ تم بھی اپنے پاپا کے ساتھ فائٹنگ کیا کرو۔ وہ گھر گیا تو اس کا باپ بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا‘ جسے اس نے رکھ کر لپّڑ دے مارا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اویس اوکاڑہ میں ہوتا ہے جبکہ اس کے دونوں بیٹے اور بیٹی لاہور میں زیر تعلیم ہیں۔ بڑی بیٹی مریم نے کنیئرڈ کالج میں داخلے کے لیے تو کوالیفائی کر لیا تھا لیکن ہاسٹل میں جگہ کی کمی کے باعث مسئلہ پیدا ہوا جو ہمارے دوست اصغر ندیم سید کی مسز کے ذریعے حل ہوا جو وہاں شعبۂ اُردو کی صدر ہیں۔ موصوف کے ساتھ پچھلے دنوں جو افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے میں نے اس پر لکھا اس لیے نہیں کہ اللہ نے جان بچا لی۔ چنانچہ چند دوستوں کو مبارک باد دے دی تھی اور بس۔ آپ کئی سال پہلے جب ملتان کے ایک کالج میں پڑھایا کرتے تھے تو وہاں میرے اعزاز میں ایک تقریب برپا کرنے کا اہتمام کیا جس میں سبط حسن اور پروفیسر جابر علی سید (مرحومین) بھی شریک تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے دعوت نامے کی پیشانی پر میرا یہ شعر درج کیا گیا تھا ؎ 
یہ فردِ جرم ہے مجھ پر کہ اُس سے پیار کرتا ہوں 
میں اس الزام سے فی الحال تو انکار کرتا ہوں 
مجھ سے اتنا ہی ہو سکا کہ اس دفعہ عطاالحق قاسمی کے جریدے ''معاصر‘‘ میں جو میری غزلیں شائع ہوئیں ہیں میں نے اُن کے نام سے منسوب کی ہیں۔ ان کی مکمل صحتیابی کے لیے دعاگو ہوں! 
اب پھر اس ممولے کی طرف آتے ہیں۔ آج وہ خود تو نہیں آیا البتہ اپنی جگہ ایک ہرڑپوپو کو شاید بھیج رکھا تھا۔ شدید دھند نے جہاں شہریوں کو پریشان کر رکھا ہے وہاں پرندے بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ اگرچہ دھوپ میں بیٹھ بیٹھ کر میرا رنگ پہلے سے کالا ہو گیا ہے لیکن کمرے میں بیٹھے رہنے کو جی ہی نہیں چاہتا کہ سارا دن اگر ان کے چہچہے نہ بھی ہوں کیونکہ سردی میں وہ بھی باہر کم ہی نکلتے ہیں تو دور و نزدیک یہ پرندے موجود ضرور ہوتے ہیں۔ اُڑ رہے ہوں یا کھمبوں کے تاروں پر بیٹھے ہوئے ہوں۔ چونکہ اونچی جگہ پر بیٹھا ہوا ہوں۔ اس لیے دور سے کوئی ٹریکٹر ٹرالی یا موٹر سائیکل بھی گزرتا ہے تو ایک عجیب تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ چونکہ یہ تقریباً دیہاتی علاقہ ہے اس لیے دودھ بھی خالص دستیاب ہے اور جس کی خوشبو اور گاڑھے پن سے پچھلا زمانہ یاد آ جاتا ہے جب خالص دودھ نے ایک خواب کی صورت اختیار نہیں کی تھی۔ 
شام گہری ہوتی ہے تو کھیتوں میں چاروں طرف گیدڑوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں جن میں سے بعض تو باقاعدہ گریہ کر رہے لگتے ہیں۔ غرض میں آج کل ممولوں‘ ہرڑپوپوئوں‘ کوّوں‘ ممولوں اور گیدڑوں کی صحبت سے فیض یاب ہو رہا ہوں۔ مشاعروں اورادبی تقریبات میں پہلے بھی بہت کم جاتا ہوتا تھا‘ اب تو شہر سے دوری کا معقول بہانہ بھی دستیاب ہے چنانچہ میں اور دیگر مذکورہ بالا مخلوق ع 
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں‘ سب مزے میں ہیں 
اخبار البتہ یہاں دیر سے آتا ہے۔ آج اس کے آنے میں زیادہ ہی تاخیر ہو گئی تھی اور کالم کا پیٹ بھرنا بھی ضروری تھا‘ اس لیے اِدھر اُدھر کی ہانک کر ہی اپنے آپ کو فارغ محسوس کر رہا ہوں اور دُھند کے چھٹنے اور ممولے کی واپسی کا منتظر ہوں ع 
اب آ بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے 
آج کا مطلع 
جا چکا ہے وہ مگر شامِ جدائی خوبصورت ہے 
اس سے بھی بڑھ کر غبارِ بے وفائی خوبصورت ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں