"ZIC" (space) message & send to 7575

ممولے کی واپسی اور دھرنے کی دھمکی

دُھند چھٹی اور دھوپ نکلی ہے تو ممولا بھی واپس آ گیا ہے جس کی مبارکباد یں اپنے آپ کو دے چکا ہوں۔ لیکن یہ حسبِ معمول اکیلا ہی آیا ہے‘ یا آئی ہے۔ ساتھی کے ساتھ اس کی ان بن ہے یا دونوں کے درمیان علیحدگی ہو چکی ہے۔ بہر صورت‘ ہوتا یہ ہے کہ اگر ایک ساتھی بچھڑ جائے تو وہ دوسرا ڈھونڈ لیتا ہے۔ تاہم دُعا کرنی چاہیے کہ دونوں خوش خُرّم زندگی گزار رہے ہوں اور یہ کسی معاہدے کے تحت محض ہوا خوری کے لیے ادھر نکل آتا ہو‘ جیسا کہ ایک انگریز نے اپنی 85ویں سالگرہ پر کچھ صحافیوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ ایک صحافی نے جب پوچھا کہ اس عمر میں اس کی صحت کا راز کیا ہے تو اس نے بتایا کہ شادی کے بعد ہم دونوں میں معاہدہ ہو گیا تھا کہ جب بھی آپس میں لڑائی جھگڑا ہو تو دونوں میں سے ایک گھر سے باہر نکل جائے تاکہ بات بڑھ نہ سکے‘چنانچہ میں اکثر باہر کی کھلی ہوائوں میں ہی رہا ہوں!
تاہم‘کالم چھپنے کے بعد لالیوں اور شارقوں نے آ کر گلہ کیا کہ ہم آپ کے کچھ نہیں لگتے جو آپ نے ہمارا ذکر ہی نہیں کیا؟اس کے علاوہ بُلبلوں نے الگ شکایت کی حالانکہ پرندوں کے ساتھ ہمارا بھائی چارہ شروع دن سے رہا ہے ‘حتیٰ کہ بعض اوقات ٹرانسفارمیشن تک بھی نوبت پہنچ گئی جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے ؎
وہ شام تھی اور آسماں جیسے ڈھک گیا تھا 
کہ ہم پرندے تھے اور ہزاروں میں آ رہے تھے
اس کے علاوہ ان کا شکار کھیل کر بھی ایک طرح سے ان کے ساتھ یگانگت کا ثبوت دیتے رہے۔ایئر گن سے تلیر‘ کبوتر‘فاختہ‘ہریل وغیرہ سے دل لگی کی تو شاٹ گن سے تیتر‘ مرغابی ‘ وغیرہ کے ساتھ اپنا تعلق کام دوہن پیدا اور استوار کیا۔ فاختائوں کا تو یار لوگوں نے جال سے پکڑ پکڑ کر اور ہوٹلوں کوبیچ بیچ کر بیج ہی مار دیا۔یہی وجہ ہے کہ کبوتر تو پھر بھی کہیں کہیں نظر آ جاتے ہیں۔فاختہ کا نام و نشان تقریباً ختم ہی ہو کر رہ گیا ہے جسے امن کا نشان سمجھا جاتا ہے‘ اور اس کے ساتھ ہمارے ہاں سے امن بھی غائب ہو گیا ہے۔
اس کے علاوہ یہاں طرح طرح کے پودے ہیں اور پُھول۔ گلاب سب سے نمایاں ہے اور پیلے‘ گلابی‘سُرخ اور سفید ہر طرح کا گلاب اپنی اپنی بہار دکھانے کو موجود ہے۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
اُسی زرد پُھول کی بد دُعا ہے‘ ظفر‘ یہ دل کی فسردگی 
مرا منتظر رہا مُدتوں جو پسِ نقاب کِھلا ہُوا
بلکہ اس سے بھی آگے چلیے ؎
یہ مہک جو تیر کی طرح میرے مشامِ جاں میں در آئی ہے
اِسی کُنج میں ہے یہیں کہیں وہ سیہ گلاب کِھلا ہُوا
اس وقت تو اسے سانولے رنگ کی رعایت سے ایک علامت کے طور پر لایا گیا تھا لیکن بعد میں جا کر دیکھا کہ واقعی سیہ گلاب بھی ''ایجاد‘‘ ہو چکا ہے۔ پھر یہ شعر کہ ؎
آنکھوں میں سُرخیوں کا سفر رُک گیا‘ ظفر
دیکھا تو ہم اسیر تھے نیلے گُلاب کے
تاہم‘ابھی تک نیلا گلاب شاید واقعتاً وجود میں نہیں آیا‘البتہ سبز گلاب ضرور پیدا کیا جا چکا ہے۔تجربات سے یار لوگوں نے اس کی پتیوں میں بھی طرح طرح کے ڈیزائن بنا دیے ہیں جس سے وہ باقاعدہ ڈب کھڑبیاں ہو گئی ہیں۔
ہمارے اکثر شعراء گلاب کو ترکیب کے ساتھ بھی باندھ دیتے ہیں مثلاً شاخِ گلاب وغیرہ۔ یہ درست نہیں ہے کیونکہ ترکیب سے باندھنے کے بعد یہ مفرّس ہو جاتا ہے اور اس کے معنی تبدیل ہو جاتے ہیں کیونکہ فارسی میں گلاب کے پھول کے لیے لفظ گُل استعمال ہوتا ہے جبکہ گلاب عرقِ گلاب کے لیے ہے۔وجہ یہ رہی کہ گلاب دو لفظوں سے مل کر بنا ہے یعنی گل اور آب یعنی گل کا پانی یا عرق چنانچہ فارسی قاعدے کے مطابق پہلے تو آبِ گُل کو گل آب بنایا گیا اور پھر اسے ایک لفظی کر کے گُلاب کر دیا گیا۔ اور اسے پُھولوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے جیسے آم کو پھلوں کا بادشاہ۔
سو‘پرندوں کے علاوہ یہاں پر پودے ہیں جو ابھی پیڑ نہیں بنے اور جن میں سب سے نمایاں کِنّو کا وہ واحد پیڑ ہے جو نمائشی ہونے کے ساتھ ساتھ جوان ہو رہا ہے اور اس پر کثرت سے چھوٹے چھوٹے پھل لگے ہوئے ہیں اور دور سے ایسا لگتا ہے جیسے پیڑ نے زرد رنگ کی شال اوڑھ رکھی ہو۔ اس کا دوسرا پیڑ ابھی اتنا پھلا پُھولا نہیں ہے یعنی اس پر پھل بھی کم آیا ہے ۔تاہم یہاں مجھے طالب علمی کے زمانے کا ایک ہائیکو یاد آ رہا ہے‘ جو میں نے انگریزی سے ترجمہ کیا تھا اور جو ''لیل و نہار‘‘میں شائع ہوا تھا اور جو یُوں تھا؛
میں نے مانا کہ مجھ سے نفرت ہے
تجھے اے رنگ روپ کی رانی
پر وُہ اک سنگترے کا پودا جو
بھر کے پُھولا ہے میرے گھر کے پاس
کیا اُسے دیکھنے نہ آئو گی!
میں نے مالی سے جہاں جامن‘امرُود اور موسمی کے پودے لگانے کو کہا ہے وہاں موتیا‘چمیلی ‘نرگس اور رات کی رانی کے بھی۔تاہم سبز گھاس کے وسیع لان اس کی اصل خوبصورتی ہیں‘ اور‘اس کے باہر ایک طرف کو‘اس کی سرحد پر بانس کے پودے‘جنہیں درخت کہنا غلط نہ ہو گا کیونکہ یہ بیحد طویل بھی ہیں اور چھتنار بھی۔ سوئمنگ پُول سے میرا کوئی سروکار نہیں کیونکہ مجھے تیرنا نہیں آتا البتہ بقول شخصے اس وقت تک پانی میں پائوں نہ دھروں گا جب تک تیرنا نہ سیکھ لوں‘وغیرہ وغیرہ۔
میری یہاں ایک اور بڑی عیاّشی یہ ہے کہ واک کے لیے کُھلی جگہ ہے اور صاف و شفاف ‘دھوئیں اور دُھول سے پاک اور صاف ہوا۔ہارنوں کے شور سے بھی پُوری طرح محفوظ ہُوں اور ٹریفک یہاں پر نہ ہونے کے برابر ہے البتہ ٹریکٹر ٹرالیوں کی موسیقی ضرور دستیاب ہے جو تعمیر طلب عمارتوں کے لیے ریت‘مٹی ‘اینٹیں اور دیگر ضروریات بہم پہنچاتے ہیں‘ اور‘ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں ‘شام ہوتے ہی گیدڑوں کا میوزک شروع ہو جاتا ہے جو شاید گیدڑ بھبکیاں بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ان کے علاوہ موٹا تازہ ڈفّی ہے جو حال ہی میں دو بچوں کا باپ بنا ہے جبکہ اس کے بچوں کی ماں قریبی فارم ہائوس میں رونق افروز ہے‘ خود اعلیٰ نسل کا ہے لیکن اہلیہ ذرا نیچ ذات کی۔سو‘ جہاں اُمید ہے کہ ممولا آئندہ بھی اپنی صُحبت سے‘ باقاعدہ فیضیاب کرتا رہے گا اور کسی روز اپنے ساتھی کی زیارت بھی کرائے گا‘ وہاں ایک اور مسئلہ ضرور کھڑا ہو گیا ہے کہ پچھلے متعلقہ کالم میں میری آل اولاد میں سے جن بچّوں کا ذکر نہیں کیا جا سکا تھا انہوں نے سخت احتجاج کرتے ہوئے مین گیٹ پر دھرنا دینے کی دھمکی دیدی ہے کیونکہ وہ کم و بیش سارے کے سارے ہی عمران خاں کے پیرو کار ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ صاحب ِ موصوف کے دھرنوں سے نہ تو حکومت کی صحت پر کوئی اثر پڑا ہے نہ الیکشن کمیشن پر۔تاہم ‘وہ اپنا یہ شوق ضرور پورا کر لیں کیونکہ اس دوران اُن کے کھانے پینے کا پُورا پُورا خیال رکھا جائے گا حالانکہ یہ سب ایک سے ایک بڑھ کر ہمارے جگر گوشے ہیں جبکہ اخبارات میں نام آنا بھی کوئی پسندیدہ بات نہیں ہے‘ اور ‘یہ بھی کہ یہ سارے کے سارے نام میرے دل پر لکھے ہوئے ہیں اور جن کی رونق ہر وقت میرے اندر لگی رہتی ہے!
پھلا پُھولا رہے یا رب چمن میری اُمیدوں کا
جگر کا خُون دے دے کر یہ بُوٹے میں نے پالے ہیں
آج کا مقطع
درکار ہے لوگوں کو، ظفرؔ، موجِ مسّرت
اِس اُلجھے ہوئے خوابِ مسّرت کی بجائے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں