"ZIC" (space) message & send to 7575

ایک گڑا مردہ اور انتظار حسین کا بیلچہ (1)

میرے اور برادرم شمس الرحمن فاروقی کے درمیان کچھ عرصہ پہلے جو دل لگی چلتی رہی ہے‘ محبی انتظار حسین نے اس گڑے مردے کو ایک بار پھر اکھیڑا ہے‘ اگرچہ یہ مردہ ایسا ہے کہ شاید کبھی کبھار یہ خود ہی قبر سے اٹھ کھڑا ہو جایا کرے۔ اگلے روز انہوں نے میرے حق میں چند خوبصورت جملے لکھنے کے بعد اپنے کالم ''بندگی نامہ‘‘ میں یہ قرار دیا کہ جیسے مرزا یاس یگانہ نے شہرت کے لیے غالب کا سہارا لیا تھا‘ اسی طرح میں نے فاروقی کا سہارا تلاش کر لیا۔ صاحب موصوف نے ایک بار میرے بارے میں لکھتے ہوئے اپنے کالم کا عنوان جمایا تھا ''چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آئے‘‘ حالانکہ انتظار تو میرے معشوقوں میں سے ہیں‘ ان کے چھیڑنے سے مجھے غصہ کیونکر آ سکتا ہے۔ 
سب سے پہلے تو یگانہ کے بارے میں چند باتیں صاف ہو جائیں جسے میں نے کبھی کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ جریدہ سمبل (راولپنڈی) میں اس پر لکھے جانے والے میرے مضمون کا عنوان تھا ''یگانہ... ایک معمولی شاعر‘‘۔ مشفق خواجہ نے یگانہ کے بارے عرق ریز تحقیق کے بعد جو کتاب لکھی تھی‘ اس میں درج ہے کہ وہ خود اپنے حق میں تعریفی مضامین لکھ کر اپنی کتابوں میں شامل کر لیا کرتا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو ''غالبؔ شکن‘‘ بھی کہا کرتا تھا اور ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو غالبؔ سے بڑا شاعر کہتا تھا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں میں تو غالبؔ کے ماننے والوں میں سے ہوں اور اس کا نیازمند بھی۔ 
جہاں تک میرا شمس الرحمن فاروقی کا سہارا لینے یا تلاش کرنے کا سوال ہے تو انتظار حسین خود ہی سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ میں شروع سے ہی اپنے پائوں پر کھڑا ہوں یا واقعی مجھے کسی شمس الرحمن فاروقی کے سہارے کی ضرورت تھی۔ فاروقی کے ساتھ ایک دیرینہ تعلق اور محبت کا رشتہ ضرور تھا لیکن ان کی شاعری‘ تنقید اور افسانہ نگاری پر میں کئی بار اپنی رائے کا اظہار کر چکا ہوں۔ اس لیے کہ باہمی تعلق کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کر سکتے۔ پھر کسی کے بارے میں کسی کی رائے سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا اور کوئی رائے سند بھی نہیں ہوتی۔ 
مثلاً سہ ماہی جریدے ''زیست‘‘ کراچی کے تازہ شمارے میں شفیق احمد شفیق کا ایک مضمون بعنوان '' جدید افسانے کی جدید تنقید... ایک ناقدانہ مطالعہ‘‘ ہے۔ اس میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ بقول شہزاد منظر ''نئی نسل کے افسانہ نگاروں کو گمراہ کرنے میں جن مصنفین نے نمایاں حصہ لیا ہے‘ ان میں پاکستان میں انتظار حسین اور افتخار جالب اور ہندوستان میں شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ شامل ہیں‘‘۔ اس کے علاوہ لکھتے ہیں کہ ''یہ گمراہی کسی اور نے نہیں‘ جدید افسانے کے سب سے معتبر نام انتظار حسین نے پھیلائی‘‘۔ آگے چل کر ارتضیٰ کریم کے حوالے سے درج ہے کہ شمیم حنفی کی تنقید نہ تو غیر جانبدار ہے اور نہ صداقت پر مبنی ہے۔ اسی طرح انہوں نے شمس الرحمن فاروقی‘ گوپی چند نارنگ اور ان کے ہمنوائوں کی تنقیدی آرا سے بھی بڑے مؤدبانہ اور شائستہ انداز میں اختلاف کیا ہے۔ پھر مضمون نگار لکھتے ہیں کہ شمس الرحمن فاروقی جس تیزی سے عمر رسیدہ ہو رہے ہیں‘ اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ پرانے ہوتے جا رہے ہیں بلکہ پیچھے کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ کتاب (افسانے کی حمایت میں) خود ہے جس میں انہوں نے پرانے فلسفیوں کی نقل میں مکالمے پر مشتمل تین مذکورہ مضامین لکھے ہیں‘ خود ہی سوال گھڑتے اور خود ہی جواب دیتے جاتے ہیں۔ انہوں نے سوال اپنے مطلب کے مطابق گھڑ کر جواب اپنی خواہش کے مطابق دینے کی کوشش کی ہے۔ جس طرح نئے افسانہ نگاروں نے تجریدیت اور ناقابلِ فہم علامتوں کا جال پھیلا کر ہذیان کو فروغ دیا اسی طرح خودساختہ سوالات کے تیر نشانے پر رکھ رکھ کر ترازو کیے ہیں۔ کبھی حالیؔ‘ کبھی ترقی پسندوں اور کبھی مارکس کو غیر ضروری انداز میں اپنی تنقیص کا ہدف بنایا ہے۔ وہ شاید خود کو ارسطوئے دوراں ثابت کرنا چاہ رہے تھے‘ مگر نہ کتاب کی پہلی اشاعت کے بعد ایسا ہوا ہے‘ نہ دوسری اشاعت کے بعد۔ انہوں نے بعض جگہ سنجیدہ مسئلے کو طنز و مزاح کی نذر کردیا ہے۔ اگر انہوں نے ہلکے پھلکے مزاح کی گنجائش نکال کر تینوں مضامین کو جو افسانے سے متعلق لکھے گئے ہیں‘ دلچسپ بنانے کی کوشش کی ہے تو میں یہ کہوں گا کہ ان کی یہ کوشش مشکور نہیں ہو سکی ہے... 
یہ اقتباسات اس لیے نقل کیے گئے ہیں کہ اختلافِ رائے ہی ادب کی جان ہے اور اسے مخالفت یا دشمنی نہیں سمجھنا چاہیے۔ نیز یہ کہ اس سے شمس الرحمن فاروقی‘ انتظار حسین‘ گوپی چند نارنگ یا شمیم حنفی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ جو جتنا ہے‘ اُتنا ہی رہتا ہے‘ خواہ کوئی تعریف کے ڈونگرے برسائے‘ خواہ نقص نکالے۔ خود میرے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ میں نے اپنے بعد آنے والوں کو اگر متاثر کیا ہے تو گمراہ بھی سب سے زیادہ کیا ہے لیکن میں کسی کے پیچھے اس پر لٹھ لے کر بھاگا نہیں ہوں بلکہ اس کا ہمیشہ لطف اٹھایا ہے۔ 
پنجابی کا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے مرے ہوئے اور مُکرے ہوئے کا کوئی علاج نہیں ہے۔ شمس الرحمن فاروقی اگر بات کہہ کر مُکر گئے ہیں تو انہیں اس کا بھی حق پہنچتا تھا کیونکہ بات کے مالک تو وہی تھے۔ بہتر ہوتا اگر وہ کہہ دیتے کہ ہاں میں نے یہ بات کبھی کہی تھی لیکن اب میں ایسا نہیں سمجھتا‘ بات ختم ہو جاتی۔ لیکن چونکہ ان کی رائے میں تبدیلی میرے ساتھ ناراضی کے بعد‘ جس کا تذکرہ میں کر چکا ہوں‘ آئی تو انہوں نے یہ تکلف بھی روا رکھنا ضروری نہیں سمجھا۔ میرے پاس مشفق خواجہ کا ان کے اپنے لیٹر پیڈ پر لکھا ہوا خط موجود ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ فاروقی نے غالباً ایک ریڈیو ٹاک میں یہ بات کہی ہے۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب فاروقی میری تعریف و توصیف میں دن رات مصروف رہا کرتے تھے‘ لکھ لکھ کر بھی‘ اور زبانی بھی۔ پھر یہ بات ان کا نام لیے بغیر اگر بھارتی رسالہ ''استعارہ‘‘ میں چھپ گئی تھی تو وہ خود ہی بتا دیں کہ اتنی دلیرانہ اور بڑی بات اُن کے علاوہ اور کون کہہ سکتا تھا؟ 
پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ فاروقی کا کہا ہوا میرے لیے کوئی سند نہیں تھا جسے تسلیم کروانے پر میں مُصر ہوتا۔ فاروقی اور انتظار حسین کے ساتھ محبت کا رشتہ تب بھی تھا‘ اب بھی ہے اور مرتے دم تک رہے گا۔ پھر‘ چھیڑ چھاڑ بھی انہی کے ساتھ کی جاتی ہے جن کے ساتھ گہری یگانگت ہو۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ انتظار حسین کا ابھی اس قصے سے پوری طرح جی نہیں بھرا اور وہ آئندہ بھی اسے بیان کر کر کے مزے لیتے رہیں گے ع 
تُو مشقِ ناز کر‘ خونِ دو عالم میری گردن پر 
آج کا مطلع 
شہرِ خوابیدہ کے اندر نہیں جانے والی 
یہ صدا وہ ہے جو گھر گھر نہیں جانے والی 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں