حکومت غلط یا صحیح‘ جس طرح سے بھی آئی ہے‘ آ گئی ہے‘ حتیٰ کہ عمران خان نے بھی اسے تسلیم کر لیا ہے‘ جنہیں دھاندلی کی شکایت سب سے زیادہ تھی۔ ظاہر ہے کہ یہی ملکی مفاد میں بھی تھا۔ مزید یہ کہ جہاں تک دھاندلی کا تعلق ہے تو یہ کب نہیں ہوئی اور کہاں نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں اگر زیادہ ہوتی ہے تو اسے دوسری ابتلائوں کی نسبت سے دیکھنا چاہیے؛ چنانچہ اب جبکہ حکومت دہشت گردی کی منجدھار میں گوڈے گوڈے دھنسی ہوئی ہے‘ اسے اس کے اجزائے ترکیبی یاد دلا کر سب و شتم کا نشانہ بنانا قطع رحمی کی ذیل میں بھی آتا ہے‘ یعنی مرے کو مارے شاہ مراد۔ بے شک شاہ مدار بننے کا بھی اپنا ایک مزہ ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک دوسرے محاورے کے مطابق یہ مرے پر سو دُرّے لگانے ہی کے مترادف ہے۔
میری ناچیز تحریریں پڑھنے والے گواہ ہیں کہ میں ایک پرلے درجے کا بدلحاظ آدمی ہوں اور موجودہ حکمرانوں سمیت کوئی بھی حکومت شاید ہی میرے شر سے محفوظ رہی ہو‘ اس لیے بھی کہ حکومت کوئی بھی اچھی نہیں ہوتی‘ لیکن ایک ایسے شخص‘ جو پہلے ہی نہ صرف زخم زخم ہو بلکہ ہر طرح کی بلائوں میں گھرا ہوا ہو‘ پر نہ صرف رحم کھانا چاہیے بلکہ جس حد تک بھی ممکن ہو‘ اس کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ بحال ہو کر وہ کچھ سرانجام دے سکے جس کی اس سے توقع کی جاتی ہو۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
ہیں زندگی کے ساتھ ہی سارے معاملات
دشمن کو ڈوبنے سے بچانے تو دے مجھے
اور پھر‘ نوازشریف تو ہمارا دشمن بھی نہیں ہے؛ تاہم حکومت کی کارگزاری پر تنقید ہر حالت میں کی جا سکتی ہے اور اس کی پالیسیوں اور ترجیحات سے سخت اختلاف بھی‘ لیکن اگر یکلخت یہ اعلان کر دیا جائے کہ یہ تو دھاندلی کی پیداوار ہے اور ہر لحاظ سے گردن زدنی‘ حالانکہ ہم طوعاً و کرہاً اسے تسلیم کر چکے ہیں۔ اس پر ایک پرانا لطیفہ یاد آ رہا ہے کہ ایک آدمی کسی کے گھر کے سامنے کھڑا اُسے غلیظ گالیاں دے رہا تھا۔ ایک راہگیر نے اُس سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولا: ''اس نے ایک سال پہلے مجھے گینڈا کہا تھا!‘‘
''لیکن گالیاں تم اُسے اب دے رہے ہو!‘‘ راہگیر نے حیران ہو کر پوچھا۔
''اس لیے کہ میں نے گینڈا دیکھا ہی آج ہے!‘‘ اس نے جواب دیا۔
سو‘ کیا ہمیں آج پتہ چلا ہے کہ یہ پنکچر لگی حکومت ہے؟ اور‘ جہاں تک اس کے عوام میں غیر مقبول ہونے کا تعلق ہے تو عوام اگر پانچ سال تک ایک انتہائی کرپٹ حکومت کو بھگت آئے ہیں تو وہ نو ماہ میں ہی اس کی کارکردگی دیکھے بغیر اور اسے مناسب موقع دیئے بغیر اس سے اس قدر بیزار کیونکر ہو سکتے ہیں کہ طالبان اور مارشل لاء میں سے کسی کو بھی قبول کر لیں گے جبکہ ہمارے ہاں جمہوریت کا ڈھانچہ پہلے سے ہی ڈھیلا ڈھالا رہا ہے بلکہ ایک ثقہ رائے تو یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا اور یہ پے بہ پے مارشل لائوں ہی کی زد میں رہی ہے۔
چنانچہ افواجِ پاکستان اور حکومت کے درمیان کسی قدر بدمزگی اگر موجود بھی ہے تو جلتی پر تیل ڈالنے کی بجائے اسے معدوم یا کم کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو تو ہم تبدیل بھی کر سکتے ہیں‘ فوج تو ایک مستقل ادارہ ہے اور ہر جوان اپنی مدت پوری کر کے ہی ریٹائر ہوتا ہے کیونکہ اگر کسی فرد کے لیے حکومت اگر چاہے بھی تو ایسا نہیں کر سکتی۔ اور‘ اس سلسلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اگر کوئی مسئلہ ہے بھی تو دونوں فریقوں کو مل بیٹھ کر اسے حل کرنا چاہیے۔ ہم میڈیا والے نہ اس کے اہل ہیں‘ نہ ہی یہ ہمارا منصب ہے اور نہ ہی ہم سے اس کی توقع کی جاتی ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں تو خود کچلے جانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے‘ اگر خدانخواستہ واقعی یہ کوئی لڑائی ہے بھی‘ جبکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ میڈیا کی طرف سے اس معاملے میں پہلے ہی اوور ڈوئنگ سے کام لیا جا رہا ہے۔
چنانچہ اس مخمصے میں الجھے بغیر بھی کوئی سٹینڈ لیا جا سکتا ہے مثلاً یہ کہ مذاکرات ختم اور کامیاب ہونے سے پہلے حکومت کو طالبان قیدی رہا نہیں کرنے چاہئیں تھے یا یہ کہ حکومت شروع سے ہی زیردستی اور کمزوری کا مظاہرہ کر رہی ہے بلکہ کچھ عناصر تو دہشت گردوں کے ساتھ سرے سے مذاکرات ہی کے خلاف ہیں جبکہ اب وہ پیس زون کے نام پر ہمارے بعض علاقوں پر بالادستی بھی چاہتے ہیں۔ اور‘ یہ بھی کہ اگر تازہ ترین کارروائیاں طالبان نہیں کر رہے تھے تو جنگ بندی کے باوجود اور کون کر رہا ہے جبکہ جس تنظیم نے فروٹ منڈی کے سانحہ کی ذمہ داری لی ہے‘ وزیر داخلہ اس سے بھی متفق نہیں ہیں۔
دوسری طرف‘ اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ محض ایک ریٹائرڈ جرنیل کے خلاف ہونے والی کسی قانونی کارروائی سے فوج کے وقار کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ اور‘ اگر واقعی ایسا ہے تو اسے کسی طور بھی مناسب اور جائز قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس کے حوالے سے حکومت اگر کوئی سٹینڈ لے رہی ہے تو یہ اس کا حق ہے اور اسے ایسا کرنا چاہیے ورنہ اس کی اپنی عزت نہیں رہ جائے گی۔ فوج کو اب اس بات کا احساس کر لینا چاہیے کہ مداخلت کا یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جانا چاہیے۔
پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ تمام سیاسی قوتیں اور عوام خود چاہتے ہیں کہ یہ دخل درمعقولات اب بند ہو جانا چاہیے کہ دنیا کہاں کی کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم ہر دس سال بعد کسی مارشل لاء کے دہانے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی ہے کہ فوج اگر واقعی اس معاملے پر تحفظات کی شکار ہے تو وہ اپنے بارے میں بھی کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کر رہی جبکہ اس سے رجوع کرنے کا کڑوا گھونٹ اسے بھر ہی لینا چاہیے کہ ملک کا مفاد بھی سراسر اسی میں ہے اور افواجِ پاکستان کا اپنا بھی‘ اب اگر عدالتی کارروائی کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچتی تو نہ عدالتوں کا کوئی وقار باقی رہ جائے گا نہ خود عوام کا‘ جن کی منتخب حکومت کو اس قدر زچ کردیا جائے کہ وہ اپنی بچی کھچی عزت کی دستار خود ہی اُتار پھینکے اور ملک ایک بار پھر اقوامِ عالم میں نکّو بن کر رہ جائے۔ گفتگو میں فوج کے وقار کا خیال نہ رکھنا اس سے بھی بڑا جرم ہوگا جس سے ہر صورت احتراز کرنا ہوگا کیونکہ فوج کا عدم احترام پورے ملک کے عدم احترام کے مترادف ہے۔
آج کا مطلع
دریائے تُند موج کو صحرا بتایئے
سیدھا بھی ہو سوال تو اُلٹا بتایئے