داستان سے غزل کی کلاسیکی شعریات تک اور جدیدیت کی شناخت سے لے کر عروض و لغات تک‘شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی عمل کا دائرہ وسیع بھی ہے اور ایسی بصیرت کا حامل بھی جو معاصر اردو تنقید میں ایک منفرد مثال ہے۔
شمس الرحمن فاروقی ستمبر 1934ئمیں پیدا ہوئے اور الہ آباد سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ ہندوستانی سول سروس سے وابستہ رہنے کے بعد 1994ء میں ریٹائر ہوئے۔ انہوں نے 1966ء میں ''شب خون‘‘جاری کیا جو ہمعصر ادب کے معیاری جریدے کے طور پر آج تک اپنا امتیازقائم کیے ہوئے ہے۔ شمس الرحمن فاروقی جامعہ ملیہ اسلامیہ‘علی گڑھ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف پینسلوینیا سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ انہیں ادبی خدمات پر متعدد اعزازات حاصل ہو چکے ہیں جن میں معرکہ آرا کتاب''شعر شور انگیز‘‘ پر 1996ء کا ''سرسوتی سمان‘‘ نمایاں ہے۔
یہ عبارت صاحب موصوف کی تصنیف ''لفظ و معنی‘‘ کے پسِ سرورق درج ہے‘ جس کا دوسرا ایڈیشن ''شہر زاد‘‘ کراچی نے مع تصحیح و اضافہ 2009ء میں شائع کیا تھا۔ موصوف کے تنقیدی نظریات و خیالات کے موید بھی بہت ہیں اور مخالف بھی ۔ ان کے کٹڑ مخالفین میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بطور خاص شامل ہیں جبکہ یہ بھی انہیں کبھی معاف نہیں کرتے ۔ ہماری شومئی قسمت سے فاروقی خاصے زود رنج واقع ہوئے ہیں‘اور‘ بدگمان بھی بہت جلد ہو جاتے ہیں۔البتہ ہم دونوں شروع سے ہی ایک دوسرے کے قائل بھی چلے آ رہے ہیں اور قدرتی طور پر‘بقول ایم ڈی تاثیر ؎
ہزار ہم سخنی ہو‘ ہزار ہم نظری
کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں
چنانچہ یہ دونوں لہریں ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں‘مخالف بھی اور موافق بھی‘ حالانکہ وہ ایک سکہ بند نقاد ہیں اور میں محض ایک گپ باز۔چنانچہ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد ذہن میں قدرتی طور پر کچھ سوالات اٹھے ہیں جبکہ ایک اچھانقاد خود بھی سوال اٹھاتا رہتا ہے۔ اپنے مضمون بعنوان ''شعر کی داخلہ ہیئت‘‘ میں صفحہ 51پر آپ رقم طراز ہیں:
''یہ بات درست ہے کہ اردو میں عروض کا ڈھانچہ اتنا سخت اور بے لچک ہے کہ اس کی بحورمیں کوئی قابل ذکر ردوبدل نہیں ہو سکتا۔ہندی کی بحروں میں یہ بات ممکن ہے اور اس نکتہ کا فائدہ میر کی دیکھا دیکھی جدید شاعروں نے بہت اٹھایا ہے۔ ایک دوسری مشکل یہ ہے کہ فارسی اور عربی کے بہت سے اوزان و بحور اردو میں کسی صورت سے بھی کامیابی سے نہیں آ سکتے۔ اور کچھ تو بالکل ہی نہیں آ سکتے۔بحرو افر جس کا رکن رکن سالم مفاعلتن ہے‘ ایک سامنے کی مثال ہے۔لیکن کہیں کہیں بحروں میں تصرف ممکن ہے۔ اگر میرا خیال غلط نہیں
ہے تو سب سے پہلے نشور واحدی نے (جو کہ زیادہ سے زیادہ درجہ چہارم کے شاعر ہیں)بحر ہزج میں ایک بڑی لطیف تبدیلی پیدا کر کے ایک بڑی خوبصورت بحر بنائی تھی ع
جب کوئی سنور گیا زندگی سنور گئی
ہمارے دوست نے جسے ایک بہت بڑی دریافت قرار دیا ہے اور اتنی لمبی تمہید باندھی ہے وہ یہی بحر ہے کہ
فاعلات فاعلات فاعلات فاعلات
زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ درمیان میں سکوت اوسط سے کام لیا گیا ہے ورنہ یہ ایک سیدھی سادی اور بھاگتی ہوئی بحر ہے اور اسے کسی طرح سے بھی اپج قرار نہیں دیا جا سکتا ۔اس سے اگلے صفحے پر رقم طراز ہیں:
میرے خیال میں جدید شاعری کا پہلا فرض یہ ہے کہ رباعی کو 24اوزان کی قید سے آزاد کرائے، اقبال نے اس سلسلے میں پہلا قدم اٹھایا تھا لیکن ان پر وہ لے دے ہوئی کہ اُن کے بعد آج تک کسی کی ہمت ہی نہ پڑی۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں‘ ہم کم سے کم یہ کر سکتے ہیں کہ اقبال کی ترتیب اوزان رباعی کی پچیسویں ترتیب مان لی جائے۔ اگر ملٹن اور شیکسپیئر کو یہ حق تھا کہ وہ سانیٹ کی شکل بدل دیں تو کیا اقبال یا کسی اور عہد کے بڑے شاعر کو اتنا حق بھی نہیں کہ وہ رباعی کی حدود میں اضافہ کرے؟یوں تو آج کل کے بہت سے من ندانم فاعلاتن فاعلات سکول کے شاعر رباعی کی بحر میں قطعہ لکھتے ہیں اور کسی کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ یہ قطعہ نہیں رباعی ہے۔لیکن اگر اقبال کی دی ہوئی بحر(جو بہت مترنم اور اردو کے مزاج سے ہم آہنگ ہے اور غزل میں استعمال ہوتی آئی ہے)رباعی کے لیے قبول کر لیا جائے تو رباعی کا ٹھٹھرا ہوا لہجہ بہت حد تک سدھر سکتا ہے‘‘
اس عبارت سے پہلی بات تو ذہن میں یہ آتی ہے کہ رباعی کے لیے چوبیس بحریں کیا کم ہیں جو ان میں ایک اور بحر کا اضافہ بھی کیا جائے جبکہ رباعی اب اپنے طور پر ایک متروک صنف سخن ہے جبکہ فاضل مصنف اس سے اگلے جملے میں خود کہہ رہے ہیں کہ بہرحال رباعی کی اہمیت کم ہوتے ہوتے اب بہت معمولی رہ گئی ہے‘۔اور یہ کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اقبال نے رباعیاں نہیں بلکہ قطعات لکھے تھے اور انہیں رباعی قرار دینا سعی لاحاصل تھی‘ مثلاً اقبال کے زیادہ تر قطعات اس بحر میں ہیں:
مرے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
بتا کیا تو مرا ساقی نہیں ہے
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
اب یہ سیدھی سادی اور صاف طور پر غیر رباعیانہ بحر ہے‘ اور ‘اس بحر میں بقول مصنف اقبال کی غزلیں بھی ہیں۔ مغالطہ اس لیے پیدا کیا گیا کہ قطعہ چار سے زیادہ مصرعوں پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے جیسا کہ غالب کے کئی قطعات ہیں۔دوسرا یہ کہ قطعہ میں پہلے دو مصرعے عام طور پر ہم قافیہ یا مطلع کی شکل میں نہیں ہوتے جیسا کہ رباعی میں ہوتے ہیں۔چنانچہ اقبال نے اگر قطعہ کے پہلے دو مصرعے ہم قافیہ کر دیئے تو اس سے وہ رباعی نہیں بن جاتا‘ وہ قطعہ ہی رہتا ہے اور یہ بحث ہی غیر ضروری ہے اور یہ قطعی ضروری نہیں کہ رباعی کی بحروں میں کوئی اضافہ کیا جائے‘ اور یہ بھی محض ایک خوش فہمی ہے کہ ایسا کرنے سے رباعی کا ٹھٹھرا ہوا لہجہ بہت حد تک ‘ کیا کسی حد تک بھی‘ سدھر سکتا ہے۔
چنانچہ رباعی جیسی گئی گزری صنف کا دفاع یا حوصلہ افزائی ایسے ہی ہے جیسے فوت شدگان کی تاریخ ہائے وفات نکالنا جو کہ فاضل مصنف نے اپنے (اب تک کے) آخری مجموعہ کلام میں نکالی بھی ہیں ع
خدا رحمت کُند ایں عاشقان پاک طینت را
آج کا مقطع
ظفرؔ جو نیند میں ہی بولتا رہتا ہے شب بھر
اُسے جا کر کہو ہم بھی یہاں سوئے ہوئے ہیں