پیارے طالب علمو!
آپ کی یہ شکایت بالکل بجا ہے کہ عام طور پر جو بچوں کا صفحہ شائع ہوتا ہے، زیادہ تر ایسے بچوں کے لیے ہوتا ہے جو ان پڑھ ہوتے ہیں کیونکہ ملک کے ساٹھ فیصد بچے سکول جاتے ہی نہیں۔ اس لیے طالب علموں اور طالبات کے استفادے کے لیے طلبا کا یہ صفحہ ضرور شروع کیا جانا چاہیے؛ چنانچہ اس نہایت جائز مطالبے کے پیش نظر اس صفحے کا اجرا کیا جا رہا ہے‘ امید ہے کہ یہ آپ کو پسند آئے گا اور آپ کی تعلیمی سرگرمیوں میں مددگار ثابت ہو گا۔ یاد رہے کہ ہم خود بھی کبھی طالب علم تھے اور محض اس لیے نالائق رہ گئے کہ کوئی طالب علموں کا صفحہ ہماری رہنمائی کے لیے موجود نہیں تھا۔ براہ کرم اس کے بارے میں اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کرتے رہیں۔
سبق آموز واقعات
٭...ایک لڑکا بڑی سی ٹرافی اٹھائے بھاگا بھاگا گھر میں داخل ہوا اور بولا، ''ماں میں دوڑ میں اول آیا ہوں!‘‘
''دوم اور سوم کون آیا ہے؟‘‘ ماں نے پوچھا۔
''دوم پولیس کا سپاہی ہے جو تقریباً دروازے تک پہنچ چکا ہے اور سوم جیولر ہے جو ابھی گلی کی نکڑ تک آیا ہے‘‘ بچے نے جواب دیا۔
٭...ایک لڑکا امتحان میں فیل ہو گیا تو اس نے گھر آ کر اپنے والد سے کہا۔
''ابو جب آپ امتحان میں فیل ہوتے تھے تو دادا جان نے کیا کیا تھا؟‘‘
''انہوں نے مار مار کر مجھے ادھ موآ کر دیا تھا‘‘ ابو نے جواب دیا۔
''اور جب دادا جان فیل ہوتے تھے تو پردادا جان نے کیا کیا تھا؟‘‘ لڑکے نے پھر پوچھا۔
''انہوں نے تو مار مار کر ان کی ٹانگ توڑ دی تھی!‘‘ باپ نے جواب دیا۔
''ابو جان ‘‘ لڑکا بولا ''اگر آپ میرے ساتھ تعاون کریں تو میں اس خاندانی غنڈہ گردی کو ختم کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
٭...ایک لڑکا چھٹی والے دن آم کے درخت پر چڑھا آم چرا رہا تھا کہ اس دوران باغ کا مالک بھی آن پہنچا اور لڑکے سے بولا: ''نیچے اترتے ہو یا تمہارے باپ کو بلائوں؟‘‘
''انہیں بلانے کی ضرورت نہیں‘‘ لڑکا بولا۔
''کیوں ؟‘‘ باغ کے مالک نے پوچھا۔
''اس لیے کہ وہ ساتھ والے پیڑ پر چڑھے ہوئے ہیں!‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
٭...ٹیچر جب دوسری جماعت کے بچوں کو حساب پڑھا چکی تو اس نے آزمائش کے طور پر ایک بچے سے پوچھا، ''تمہارا باپ اگر مجھ سے 15 روپے ادھار لے جائے اور 5 روپے واپس کر دے تو اس کے ذمہ کتنے پیسے رہ گئے‘‘
''کچھ بھی نہیں‘‘ بچہ بولا۔
''اس کا مطلب ہے تم حساب بالکل نہیں جانتے‘‘ ٹیچر بولی۔
''مس، میں تو حساب جانتا ہوں، آپ میرے باپ کو نہیں جانتیں‘‘ بچے نے جواب دیا۔
٭... ایک لڑکا امتحان میں فیل ہو گیا۔ اس کے ایک دوست نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولا: ''جو لڑکا امتحانی کمرے میں مجھ سے آگے بیٹھا تھا اسے کچھ آتا جاتا ہی نہیں تھا اور جو میرے پیچھے تھا وہ بھی پرلے درجے کا نالائق تھا، میں کیسے پاس ہو سکتا تھا؟ ‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
٭...ایک لڑکے نے گھر آ کر ماں کو بتایا کہ میں دوڑ میں اول آیا ہوں۔ ماں نے پوچھا۔
''کتنے لڑکے بھاگے تھے‘‘
''میں اکیلا ہی بھاگا تھا!‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
٭... ایک لڑکا سکول میں دیر سے پہنچا تو استاد نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں اور یہ دوسرا لڑکا اکٹھے آ رہے تھے کہ راستے میں اس کی چوّنی گم ہو گئی۔
''چوّنی تو اس کی گم ہوئی لیکن تم کیوں دیر سے پہنچے؟‘‘
''جناب میں نے اس پر پائوں جو رکھا ہوا تھا!‘‘ لڑکا بولا۔
٭... ایک لڑکی کالج دیر سے پہنچی۔ جب اس سے دیر کی وجہ پوچھی گئی تو وہ بولی: ''میں گھر سے نکلی ہی تھی کہ ایک اوباش نوجوان نے میرا پیچھا کرنا شروع کر دیا تھا‘‘۔
''لیکن اس کا تمہارے دیر سے آنے کا کیا تعلق ہے؟‘‘ ٹیچر نے پوچھا۔
''میڈم وہ کم بخت چل ہی اتنی آہستہ آہستہ رہا تھا!‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔
پسندیدہ اشعار
دل تو بچہ ہے جی
تھوڑا کچا ہے جی
سپرد پنجہ عہد شباب کر کے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے
بچپن کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا
جب یاد مری آئے ملنے کی دعا کرنا
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا
ایڈیٹر کی ڈاک
مکرمی! میں ایک نہایت اہم مسئلے کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ون ویلنگ کی وجہ سے ہر سال نہایت قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے جبکہ ہم نوجوان ہی قوم کا مستقبل ہیں جن سے پوری قوم کی امیدیں وابستہ ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شہروں میں کوئی ون ویلنگ ٹریننگ سنٹر ہی موجود نہیں جن کی مدد سے یہ نونہال اس فن میں طاق ہو سکیں اور ان قیمتی جانوں کو بچایا جا سکے۔ المیہ یہ ہے کہ ان سنٹرز کی عدم موجودگی کی وجہ سے نوجوان یہ ہنر خود ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناپختگی کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ براہ کرم حکومت کی اس طرف توجہ دلائیں۔
(ایک درد مند طالب علم)
آج کا مطلع
نہیں کہ اونچی ہوا میں کبھی سفر نہ کیا
نظر زمیں پہ رکھی‘ نازِ بال و پر نہ کیا