ہر غزل گو اس صنفِ سخن کی روایتی جکڑ بندیوں کو قبول کر کے ہی اس میدان میں داخل ہوتا ہے‘ اور پھر اس تابعداری کو سینے سے لگائے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ کوئی واجبی سا شاعر بھی کبھی کبھار کوئی اچھا شعر نکال ہی لیتا ہے بلکہ اکثر حالات میں اچھا شعر خود ہی نکل آتا ہے۔ اپنے لب و لہجے کو تازگی بہم پہنچانے کے لیے ہر سنجیدہ شاعر اپنی سی کوشش بہرحال کرتا ہے جو مختلف طریقوں اور طرفوں سے بروئے کار لانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ سطحی اور روٹین کی شاعری سے کچھ علیحدہ اور مختلف چیز پیش کر سکے لیکن ا س میں گنجائش اتنی کم ہوتی ہے کہ کوئی قابلِ ذکر تبدیلی روبراہ نہیں ہو سکتی اور موجود و میسر صورت حال پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آئے روز شائع ہونے والے ادبی رسائل پر وہی یبوست زدہ غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں جن سے جان چھڑانا شاعر کا مسئلہ بھی ہے اور قاری کا بھی۔ اگرچہ ایسا شاعر اور ایسا قاری بھی خال خال ہی نظر آئے گا کیونکہ کم و بیش سب لوگ اس سلسلے میں ایک سمجھوتے کے بندھن میں بندھ چکے ہوتے ہیں اور شعر کہنا چونکہ ایک طرح سے اندر کی مجبوری بھی ہے‘ اس لیے یار لوگ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں اور اس طرح شاعر کا کام بھی چلتا رہتا ہے اور قاری کا بھی‘ اور غزل کا کارواں بھی رواں دواں رہتا ہے۔ چنانچہ بُری شاعری تخلیق کرنا اگر تعزیرات پاکستان کے تحت جرم ہوتا تو کم و بیش 95 فیصد بھائی لوگ جیل کی ہوا کھا رہے ہوتے‘ جبکہ بُرے قاری کی سزا نسبتاً زیادہ ہونی چاہیے۔
ایسے شعراء کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے جو غزل پر چھائی ہوئی اس کہولت کا نہ صرف احساس رکھتے ہیں بلکہ اس ضمن میں بے چین بھی رہتے ہیں۔ میں اس بات کو نہیں مانتا کہ غزل اپنی میعاد یا عمر طبیعی پوری کر چکی ہے کیونکہ یہ بات عرصۂ دراز سے بتکرار کہی جا رہی ہے لیکن اس سلسلے میں تازہ ہوا کا کوئی جھونکا کسی نہ کسی طرف سے آیا ہی رہتا ہے۔ چنانچہ ایسے نئے شعراء موجود ہیں جو اپنے لیے ایسا الگ الگ سانچہ تیار کر چکے ہیں جس کے اندر رہتے ہوئے وہ بیکار کی قافیہ بندی سے ہٹ کر تازگی اور تاثیر کا بھی اپنے شعر میں اہتمام کرتے نظر آتے ہیں اور ا س طرح غزل گوئی کا کسی حد تک بھرم رکھے ہوئے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ بھی آٹے میں نمک کے برابر ہی رہتا ہے۔
اصل صورت حال تو یہ ہے کہ مرنے سے انکار کرتی ہوئی اس صنف کو ایک طرح سے مکمل کایا کلپ کی ضرورت ہے تاکہ یہ اپنے وجود کا کوئی جواز پیش کر سکے اور اسے برقرار رکھ سکے۔ ظاہر ہے کہ اس کی ہیئتی پابندیاں ہی اس کی راہ میں حائل ہیں جن سے مفر کی کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آتی؛ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ان پابندیوں کو توڑے بغیر بھی اس میں قابل ذکر پیش رفت کی جا سکتی ہے اور اس کی ظاہری و باطنی صورت کو نہ بدلتے ہوئے بھی اس حد تک ضرور بدلا جا سکتا ہے کہ اسے ایک نئی زندگی میسر آ سکے۔ اگرچہ اس کا کوئی طے شدہ طریق کار نہیں ہے‘ لیکن ایک زیرک اور تازہ کار شاعر اس کی بھی گنجائش نکالنے پر قادر ہے اور اس ضمن میں سرخرو ہونے کی تاب و تواں بھی رکھتا ہے۔ واہ کینٹ سے نوجوان شاعر محمود ساجدؔ کو ایک مثال کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس نے غزل میں کوئی انقلاب تو برپا نہیں کیا لیکن اسے ایک تازہ تر تازگی سے آشنا کرنے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے تو جو چیز دامنِ دل کو کھینچتی ہے وہ اس کے ہاں نئی بحور کا استعمال ہے؛ تاہم اس نے نئی بحریں حقیقتاً وضع نہیں کی ہیں بلکہ موجودہ بحروں ہی کو جگہ بہ جگہ ذرا سا کھینچا تانا ہے یا سکیڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس کام میں اس نے زیادہ تر تسکینِ اوسط سے کام لیا ہے اور مصرعوں کو اس طرح سے توڑا ہے کہ ایک نئی ہی فضا دستیاب ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ کارگزاری کرافٹ ہی کی ذیل میں آتی ہے؛ تاہم اس میں ہمیں ایک سطح کی تخلیقیت بھی ملتی ہے کہ بظاہر یہ مصرعے خارج از وزن لگتے ہیں لیکن دراصل وہ ایک ڈھیلے ڈھالے وزن میں پروئے بھی گئے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس کے موضوعات بھی غیر معمولی اور بعض اوقات غیر شاعرانہ سے بھی لگتے ہیں لیکن وہاں بھی ہمیں ایک ترو تازگی ہی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے کچھ شعر دیکھیے:
منتظر بیٹھا ہوں میں
پھول کھلنے والا ہے
جسے تم دل سمجھتے ہو
وہ آتشدان ہے میرا
کوئی آواز گیت جیسی ہے
گونجتے آبشار میں ہم ہیں
بعد میں ہم کہیں نہیں ہوں گے
بس اسی ایک بار میں ہم ہیں
ہم نے ترتیب ہی الٹ دی ہے
ابکے پہلی قطار میں ہم ہیں
بدن کی سبز رنگت کو
کہیں اک ڈال میں رکھ دیں
میرا درد بٹائیں گے کچھ دیر
اپنا رستہ لیں گے پھر کُہسار
سورج بھی سرشار ہونے والا ہے
جیسے تُو بیدار ہونے والا ہے
اک بازو سے نائو بنتی ہے ساجدؔ
اک بازو پتوار ہونے والا ہے
محبت تھی ہمیں ساجدؔ زمیں سے
مگر یہ آسماں سے جا ملی ہے
کیا کرے تجھ پہ آ نہیں سکتا
دل ابھی کھیل کود میں گم ہے
ہمارا جرم چھوٹا تھا
سزا میں کچھ رعایت ہو
ذرا سی دیر کو ہوتے
مگر اوقات میں ہوتے
نظم کا احترام کرتے ہیں
ہم غزل میں قیام کرتے ہیں
گفتگو جب نہیں ترے بارے
یہ سخن بھی تمام کرتے ہیں
رات کے ساتھ دیر تک جاگے
اور اب کوئی کام کرتے ہیں
یہ دل ترے لیے بے سبب
کتنی ہی بار بوجھل ہوا
کچھ دیر کے لیے سمٹ جائے
اک دن یہ آسماں تو پھر کیا ہو
وہاں اب آگ روشن ہے مرے دوست
جہاں پانی نظر آیا تھا پہلے
دیکھا قریب سے چہرہ کھلا ہوا
کچھ دیر دور کی عینک اتار کر
اس مجموعے کامبسوط دیباچہ نئے شاعر ضیاء المصطفیٰ ترک نے لکھا ہے جو اپنی جگہ پر ایک عمدہ تخلیق کار ہیں اور جس کا بھرپور اعتراف میں پہلے کر چکا ہوں۔ کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نے چھاپ کر شائع کی ہے اور اس کی قیمت 200 روپے رکھی گئی ہے۔ انتساب اماں اور ابا کے نا م ہے‘ اس شعر کے ساتھ:
مرے آگے آگے چلتے ہیں
ابھی دو چراغ جلتے ہیں
آج کا مقطع
اے ظفر سچ پوچھیے تو کامیابی عشق میں
سربسر جتنی بھی ہے ناکام رہ جانے سے ہے