''صدیوں جیسے پل‘‘ عنبرین صلاح الدین کا مجموعۂ کلام ہے جسے ''دی رائٹرز‘‘ لاہور نے چھاپا ہے اور اس کی قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ عمدہ کاغذ پر خوبصورت گٹ اپ کے ساتھ یہ خوبصورت شاعری نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے اور اس میں نظمیں زیادہ ہیں اور غزلیں بس برائے نام۔ ویسے بھی اس شاعرہ کا اصل جوہر نظم ہی میں کھلتا ہے۔ اس کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ غالباً پہلا مجموعۂ کلام ہونے کے باوجود اس کا نہ کوئی دیباچہ ہے نہ تعریفی فلیپ‘ حتیٰ کہ اس نے پس سرورق اپنی تصویر چھاپنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ خوبصورت ٹائٹل اس کا خود تیار کردہ ہے‘ پینٹنگ سمیت۔ آیئے اس کی شاعری کے مہکتے ہوئے باغ سے گزریں اور یہ ساری شاعری اپنے آپ میں بھر لیں:
تری آواز کا مرہم
جو اب اک لفظ بھی بولے گا تو... میں قید کر لوں گی... تری آواز کو مٹھی میں بھر لوں گی... تری فُرقت کا موسم جب مری کھڑکی میں اُترے گا... تری آواز کا زیور پہننے کے لیے جب کان ترسیں گے... ٹھٹکتا ،دم بخود وہ وقت... آئندہ کے در سے آ کے جھانکے گا... سماعت‘ خامشی کے رنج میں ڈوبی... کسی آسیب کے جکڑے ہوئے جنگل کے پہلو میں... کسی ویراں حویلی کی دوپہروں سی... اماوس رات کی وحشت سے بوجھل... جھانکتی‘ سہمی منڈیروں سی... یہاں جب خامشی کے زہر چھلکاتے ہوئے سفاک ناخن... میرے ان کانوں میں کچھ نیلی خراشیں چھوڑ جائیں گے... میں پھر سے مہرباں ساعت تراشوں گی... کہیں پھر رفتگاں میں جھانک کر راحت تلاشوں گی... وہی اک لفظ جو میں نے سنبھالا تھا... کسی گُل رنگ لمحے میں... اُسے اپنی سماعت میں اُنڈیلوں گی... تری آواز کے مرہم سے اپنے زخم بھر لوں گی... میں اپنی سُرمئی‘ ویراں سماعت سبز کر لوں گی!
جہاں میں کھڑی تھی
جہاں میں کھڑی تھی... وہاں سے قدم دو قدم ہی کا رستہ تھا... جس جا پہ موسم بدلنے کو تیار بیٹھے تھے... میرے یہ بس میں نہیں تھا کہ میں... اپنی کھڑکی کے آگے پگھلتے ہوئے... منظروں میں کوئی... اپنی مرضی کا ہی رنگ بھر دوں... خزاں کی اکڑتی ہوئی زرد بانہوں کو... اپنے جھروکے کے آگے یہ بدرنگ پیلے مناظر سجانے سے ہی روک پائوں... درختوں کی مضبوط شاخوں سے دامن چھڑاتے ہوئے زرد پتوں کو روکوں... بکھرتے ہوئے پھول لچکیلی‘ سرسبز شاخوں پہ پھر سے کھلائوں... ہوائوں کی پژمردہ سانسوں میں پھر زندگی دوڑ جائے... پرندوں کی چہکار ابھرے‘ ندی مسکرائے... جہاں میں کھڑی تھی... وہاں سے قدم‘ دو قدم ہی کا رستہ تھا... رستے میں بکھرے ہوئے کتنے پل تھے... ادھورے سفر تھے... مگر میرے بس میں نہیں تھا کہ میں... سارے بکھرے ہوئے پل ہی ترتیب دے دوں... مسافت کے مارے ہوئے راستے منزلوں سے ملا دوں... الجھتی ہوئی‘ سرپٹختی ہوئی تُند موجوں کے آگے کنارے بچھا دوں... جہاں میں کھڑی تھی... وہاں سے قدم‘ دو قدم ہی کا رستہ تھا... جس جا پہ دنیا تھی‘ ٹھہرا ہوا وقت تھا... جس جگہ زندگی تھی... مگر میرے بس میں نہیں تھا کہ میں... زندگی سے یہ کہہ دوں... کہ ٹھہرے ہوئے وقت سے آگے کچھ پل نکلنے نہ پائے... یہ دنیا کو جاکے بتائے... مجھے سانس لینے کو تھوڑی جگہ چاہیے... وقت کا ایک اُجلا کنارہ ملے... زندگی سے کچھ ایسا اشارہ ملے... اس زمانے کا بھی ساتھ سارا ملے... میں اسے جا کے کہہ دوں... مگر میرے بس میں نہیں تھا کہ میں... اپنی بانہیں اٹھائوں... قدم کو بڑھائوں... نگاہوں سے اس کو بلائوں... اسے کہہ ہی پائوں... کہ ہے یہ قدم دو قدم ہی کا رستہ... جہاں میں کھڑی ہوں!
یہ باتوں میں پڑی گِرہیں
نہیں سرکار! میں کب آپ کو ...اپنے دوپٹے کے کنارے باندھ سکتی ہوں... نہیں‘ میں آپ کو ہرگز نہیں دامن سے اپنے ٹانک سکتی ہوں... نہیں‘ ہرگز نہیں... میں کیا زبردستی چلی آئوں... بُلا لوں آپ کو مجبور ہی کر کے... یا کوئی حق جتائوں... جس کا مجھ کو حق دیا ہی کب گیا ہے... آپ گھبرائیں نہیں... کچھ بھی نہ ایسا سوچیے... میں خوش بہت ہوتی ہوں ملنے پر... سڑک پر ساتھ چلنے پر... کہانی لفظ بھر کی... آپ کے ہاتھوں سے سننے پر... مگر دیکھیں... کوئی بھی ذمہ داری تو نہیں ہے... آپ جو چاہیں... یہ رشتہ اس قدر بھاری نہیں ہے... مجھے اتنا سمجھنے میں... بہت مشکل ہے البتہ... بتا دیں... آپ کے لہجے کی اُکتاہٹ پہ دل میرا نہ گر بولے... تو آخر کون بولے گا... یہ باتوں میں پڑی گرہیں... مرے ناخن نہ کھولیں گے... تو آخر کون کھولے گا!
ایک خواب
رات کس کی نگاہوں سے بہنے لگی ہے... عجب رات ہے... جس میں کوئی ستارہ نہیں... روشنی کا کوئی استعارہ نہیں... اور اندھیرا نہیں‘ گر اُجالا نہیں... کیا عجب رات ہے... کیسی چمکیلی اپنے اندھیرے میں پل پل دمکتی ہوئی... ایسا لگتا ہے سورج ہی جاتے سمے... آخری بار پھر سے پلٹ کر... فلک کے حسیں کاسنی تخت پر... ایک لحظہ رُکا... اور یہاں سے وہاں تک کنارے فلک کے سنہرے ہوئے... چاند بھی اوٹ میں بادلوں کی چھپا... اور دہکتی نظر سے... زمیں سے فلک تک کے سارے اشارے... رُوپہلے کیے... مگر چاند‘ سورج نہ کوئی ستارہ... نگاہیں ہیں اس کی... عجب رات ہے... کیسے اس کی نگاہوں سے بہنے لگی ہے‘ نگاہیں کہ جن میں چمکتے‘ دمکتے... کنارے‘ ستارے‘ اشارے سبھی... جتنے بھی راستے ہیں... مری ذات سے‘ اُس کی روشن نگاہوں تلک... ان میں منظر دھڑکتے ہیں... سب نظارے پگھلتے ہیں... جن کے کنارے سنہرے ہیں... روشن‘ رُوپہلے ہیں!
ہمیں تو خواب نے آ کر جگایا ہے
ہمیں تو خواب نے آ کر جگایا ہے... یہاں چاروں طرف جو نیند سے بوجھل... خُمار آلود آنکھیں ہیں... انہیں کس نے بلایا ہے... کبھی ایسا بھی ہونا ہے... ہمیں خوابوں کے رستے سے... الجھتی نیند کا منظر چرانا ہے... ہمیں تم کو بتانا ہے!... تمہیں کیا کیا بتانا ہے!... ہمارا مسئلہ یہ ہے... کہ ہم خوابوں کو دل کے تنگ رستوں پر... صدا دینے کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں... ہماری بے بسی یہ ہے... کہ ہم رنگوں بھری آہٹ کوئی پا کر ...نگاہوں کو مخالف راستوں پر موڑ دیتے ہیں... ہمارا مسئلہ یہ ہے... کہ ہم ڈر سے ابھی باہر نکلنے ہی نہیں پائے... ہماری بے بسی یہ ہے... ہمارے خواب آنکھوں تک نہیں آئے... تمہاری بے رُخی نے خوف جو دل میں بٹھایا ہے... وہی اک خوف تو میری نگاہوں میں سمایا ہے... کریں کیا ہم... ہمیں پھر خواب نے آ کر جگایا ہے!
.........
بھنور میں پیر تھے اور آس اک ستارے پر
اُلجھ رہی تھی نظر دوسرے کنارے پر
تمہیں اقرار کے رستے پہ لا کر
میں خود انکار ہوتی جا رہی ہوں
کہیں میں ہوں سراپا رہگزر اور
کہیں دیوار ہوتی جا رہی ہوں
یہ کوئی خواب کروٹ لے رہا ہے
کہ میں بیدار ہوتی جا رہی ہوں
سر پٹکتے رہے اک عمر جو آزار کے ساتھ
ایک دیوار نئی بن گئی دیوار کے ساتھ
آج کا مقطع
لگاتے اینٹ ایک آدھ اپنی بھی تعمیر میں وہ، ظفرؔ
کہ جن کی عمر گزری ہے مجھے مسمار کرنے میں