پیارے شرابیو!
اگرچہ ہم خود شراب نوشی کے سخت خلاف ہیں؛ تاہم آپ کی حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جہاں ملک عزیز میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں وہاں آپ‘ چاہے خفیہ ہوں‘ چاہے ظاہر‘ کسی نہ کسی طور اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں اور یقینا آپ کی بھی خواہش ہوگی کہ میڈیا میں آپ کی بھی مناسب نمائندگی ہونی چاہیے؛ چنانچہ اپنی روایتی فرض شناسی کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کے صفحے کا بھی اجرا کیا جائے جبکہ آپ میں سے اکثر سرعام اس شغل سے پرہیز کرتے ہیں اور چھپ چھپا کر اس علّت سے عہدہ برآ ہوتے ہیں کیونکہ قانون کے لمبے ہاتھوں سے بچنا بھی آپ کے لیے عین فرض ہے‘ البتہ جو حضرات نشے کی حالت میں سڑکوں پر غل غپاڑہ کرتے پائے جاتے ہیں‘ ہم اس کے سخت خلاف ہیں حالانکہ غل غپاڑہ سے کسی کا کیا نقصان ہو سکتا ہے‘ ماسوائے ماحولیاتی آلودگی کے۔ چنانچہ پولیس والوں سے آپ کو اکثر شکایات رہتی ہیں جبکہ علاوہ ازیں بھی آپ کو متعدد اور گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اپنے مسائل سے ہمیں آگاہ کرتے رہیں تاکہ ان کے سدباب کی کوئی صورت پیدا ہوتی رہے۔
سبق آموز واقعات
٭ ایک شرابی جو ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا‘ رات کو ٹُن حالت
میں جب واپس آیا تو اپنے کمرے کی بجائے کسی اور کے کمرے میں گھس گیا اور صاحبِ کمرہ سے معذرت کر کے باہر نکل گیا۔ اِدھر اُدھر چکر لگانے کے بعد وہ دوبارہ اُسی کمرے میں آ دھمکا اور دوبارہ معذرت کی‘ جب کچھ دیر بعد وہ پھر اُسی کمرے میں داخل ہو گیا تو صاحبِ کمرہ بولے:
''مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ بار بار میرے کمرے میں ہی کیوں آ جاتے ہیں؟‘‘
''اور میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ میں جس کمرے میں بھی جاتا ہوں وہاں آپ ہی کیوں بیٹھے ہوتے ہیں‘‘ وہ بولا۔
٭ ایک بزرگ نے اپنی سالگرہ کے موقع پر میڈیا کے کچھ لوگ بھی مدعو کر رکھے تھے‘ گپ شپ کے دوران ایک صحافی نے ان سے اس عمر میں قابلِ رشک صحت کے بارے میں پوچھا تو وہ بولے:
''میری صحت کا راز یہ ہے کہ میں نے زندگی بھر شراب کو ہاتھ نہیں لگایا‘‘۔ اتنی دیر میں ساتھ والے کمرے سے برتن ٹوٹنے اور مغلظات بکنے کی آوازیں آنے لگیں تو حاضرین میں سے ایک نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو وہ بولے:
''یہ میرے والد صاحب ہیں‘ زیادہ شراب پی لیں تو یہی کچھ کیا کرتے ہیں!‘‘
٭ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں جب شراب نوشی پر کڑی پابندی عائد تھی اور ٹریفک پولیس والے موٹر سوار لوگوں سے کاغذات وغیرہ طلب کرنے کے علاوہ ان کا منہ بھی سونگھا کرتے تھے کہ کہیں ڈرائیور نے شراب تو نہیں پی رکھی‘ اُسی زمانے میں ایک بار ایک معروف اداکار کو ایک چوک پر پولیس والے نے روکا اور کہا‘ منہ سنگھائو!
''پہلے تم سنگھائو‘‘ اس نے جواب دیا جس کے بعد پولیس والے نے اسے جانے دیا۔
٭ ایک صاحب ٹن ہو کر فٹ پاتھ پر جا رہے تھے کہ انہوں نے ایک ٹیکسی والے کو ہاتھ کے اشارے سے روکا۔ اپنی منزل مقصود کا بتایا اور کرایہ طے کیا اور ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی کہ گاڑی میں چلائوں گا۔ ڈرائیور نے رضامندی ظاہر کردی۔ اگلے چوک پر سپاہی نے ساتھ بیٹھی سواری کا منہ سونگھا جو کہ ڈرائیور تھا اور جانے دیا۔ اسی طرح ہر چوک پر وہ صاحب پکڑے جانے سے بچ گئے۔
٭ ایک بزرگ صحافی کی سالگرہ پر کچھ لوگ جمع تھے تو ایک نے اس عمر میں ان کی صحت راز پوچھا تو وہ بولے ''پرہیز!‘‘
''پرہیز سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ دوبارہ سوال ہوا۔
''پرہیز سے میری مراد یہ ہے کہ میں نے 70 سال کی عمر تک صرف رقص اور شراب پر گزارا کیا ہے‘‘ وہ بولے۔
٭ پولیس نے تین شرابیوں کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا تو عدالت نے ایک سے پوچھا۔
''تم کیا کر رہے تھے؟‘‘
''جناب میں ایک تربوز جھیل میں پھینک رہا تھا!‘‘ اس نے جواب دیا۔
''اور تم کیا کر رہے تھے؟‘‘ دوسرے سے مجسٹریٹ نے سوال کیا۔
''جناب میں بھی تربوز جھیل میں پھینک رہا تھا‘‘ اس نے جواب دیا۔
''اور تم کیا کر رہے تھے؟‘‘ مجسٹریٹ نے تیسرے سے سوال کیا تو وہ بولا۔
''جناب‘ میں ہی تو وہ تربوز ہوں جسے یہ دونوں جھیل میں پھینک رہے تھے!‘‘
٭ ایک ہوٹل میں ایک شخص جب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کا ایک دوست وہاں شراب نوشی میں مشغول تھا۔
''جب نشہ چڑھتا ہے تو تمہیں اس کا کیسے پتہ چلتا ہے؟‘‘
وہ سامنے بنچ پر جو دو آدمی بیٹھے ہیں‘ جب وہ آپ کو چار نظر آنے لگیں تو سمجھیں کہ نشہ چڑھ گیا ہے‘‘ وہ بولا۔
''لیکن بنچ پر تو ایک ہی آدمی بیٹھا ہے!‘‘ اس نے جواب دیا۔
٭ ایک آدمی ہوٹل میں بیٹھا شراب پی رہا تھا کہ وہ ساتھ بیٹھے ہوئے شخص سے بولا:
''وہ سامنے والا شخص مجھے بہت بُرا لگتا ہے‘‘
''لیکن وہاں تو تین آدمی بیٹھے ہیں!‘‘ شخص مذکورہ بولا۔
''وہ جس نے داڑھی رکھی ہوئی ہے!‘‘ وہ بولا۔
''لیکن داڑھی تو تینوں نے رکھی ہوئی ہے‘‘ اس نے کہا۔
''وہ جس نے سرخ ٹوپی پہن رکھی ہے‘‘ وہ بولا۔
''سرخ ٹوپی بھی سب نے پہن رکھی ہے!‘‘ اس نے کہا۔ اس پر اس شخص نے پستول نکالا اور ان میں سے دو کو ڈھیر کردیا۔
''وہ جو بچ رہا ہے‘ وہ مجھے زہر لگتا ہے!‘‘ وہ بولا۔
آج کا مقطع
ظفرؔ، سفینہ ہمارا اسی میں خوش ہے بہت
یہ اپنے گرد جو گرداب سے لگے ہوئے ہیں