حق تو یہ ہے کہ عمران خان کا اصل اور بنیادی کام مکمل ہو چکا ہے حتیٰ کہ وزیر اعظم کا استعفیٰ بھی بہت پیچھے چلا گیا ہے۔27دن کی محنت نے حکومت کے اعتبار کو حیرت انگیز طور پر سخت مجروح کیا ہے،کیونکہ لوگوں کے ذہن تبدیل ہو چکے ہیں۔ پوری پارلیمنٹ ایک مذاق معلوم ہوتی ہے اور اپوزیشن ہو یا حکومت‘ نفسیاتی طور پر ان کی ہوا اکھڑ چکی ہے جبکہ دھرنے کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ آج ہمارے میڈیا کا فوکس عمران خاں پر ہے اور وہ کوئی جلسہ کیے اور باقاعدہ مہم چلائے بغیر ہی اپنا پیغام گلی گلی اور کوچے کوچے پہنچا چکا ہے۔
دھرنوں پر تنقید اور ان کا مذاق اڑانا ایک الگ بات ہے لیکن وہاں جو کچھ کیا جا رہا ہے‘ اس پر سن کر توجہ دینا ٹیلیویژن دیکھنے والوں کی پہلی ترجیح کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور اس تبدیلی کو ہر جگہ محسوس کیا جا رہا ہے جو ان کی آن میں پیدا ہو گئی ہے اور موجودہ صورت حال سے بیزاری اپنی آخری حدوں کو چھونے لگی ہے۔ اس لیے بھی کہ یہ ایک نئی آواز ہے اور ان آوازوں سے سراسر مختلف ہے جو ہمارے سیاستدان حضرات ایک دوسرے کے خلاف بلند کرتے رہے ہیں‘حتیٰ کہ وزیر اعظم اخلاقی اور نفسیاتی طور پر مستعفی ہو ہی چکے ہیں کہ ان دھرنوں سے نجات حاصل کرنے کا کوئی طریقہ حکومت کو نہیں سوجھ رہا۔سیاسی جرگے کا کام مکمل اور ختم ہو چکا ہے کیونکہ بے سود ملاقات بازی کی اب مزید کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی اور جو مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں‘وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کی ضد پر نہیں بلکہ دیگر مطالبات بھی صحیح معنوں میں تسلیم نہیں کیے جا سکے ۔کیونکہ ہر مطالبے کے عقب میں حکومت کو اپنی عاقبت خراب ہوتی نظر آ رہی تھی۔چنانچہ نہ صرف حکومت نے اپنی بے تدبیری کے باعث اسے ابتدا ہی میں دبا دینے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا بلکہ دھرنے والوں نے مذاکرات کا اتمام حجت بھی پورا کر دیا چنانچہ حکومت کی چولیں ان تین ہفتوں میں اس قدر ڈھیلی ہو چکی ہیں کہ اندھوں کو بھی نظر آ رہی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مذاکرات کے خاتمے اور ناکامی کے بعد ہر دو فریق کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا۔جہاں تک دھرنے والوں کا تعلق ہے تو انہیں بیٹھے رہنے کے علاوہ کچھ اور کرنے کی شاید ضرورت ہی نہیں کیونکہ ان کا کام ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے آپ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے جبکہ حکومت ان سے نبرد آزما ہونے کے حوالے سے بے بس نظر آ رہی ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی پلان اس کی سمجھ میں آ رہا ہے۔طاقت کا استعمال اگر وہ کرنا چاہے بھی تو نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے لیے پولیس ہی تیار نہیں ہے، اور اگر کربھی گزرے اور اس کے نتیجے میں لاشیں بھی گر جائیں تو یہ ایک دوسری مصیبت اس کے گلے پڑ جائے گی۔
ا س صورت حال کے نتیجے میں ملکی معیشت کا جو کباڑا ہوتا چلا جا رہا ہے بالآخر یہی حکومت کی کمر توڑ کر رکھ دے گا ۔ وہ بیشک اس کی دہائی بھی دیتی رہے لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہو گا اور وہ جلتی پر تیل ہی کا کام کرے گی۔اگرچہ اس یلغار سے پارلیمنٹ کی جملہ جماعتوں کو یکسو ہونے کا موقع میسر آیا لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا بلکہ اپوزیشن پارٹیوں کو بجا طور پر یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اس عمل سے وہ خود بھی بری طرح بے نقاب ہو گئے ہیں کیونکہ عمران خان کا نشانہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ اپوزیشن بھی ہے اور اس تاثر کو مزید ہوا ملی ہے کہ کرپٹ لوگ کرپٹ لوگوں کی حمایت میں اکٹھے ہو گئے ہیں کیونکہ دونوں کی حیثیت مشکوک ہو کر رہ گئی ہے جبکہ اپوزیشن والوں کی اکثریت بھی یہ کہتے سنی جا رہی ہے کہ عمران خاں کی باتیں صحیح اور وزن دار ہیں‘بیشک وزیر اعظم کا استعفیٰ ان کی نظر میں غیر آئینی ہی کیوں نہ ہو ع
غرض دوگونہ عذاب است جان مجنوں را
اور ‘ ان سب پر طرہ یہ ہے کہ انتخابی دھاندلی کے حوالے سے بھی روز بروز نئے نئے شواہد اپنے آپ ہی سامنے آتے چلے جا رہے ہیں اور دھرنے والوں کا یہ کام بھی آسان ہوتا نظر آ رہا ہے۔ لوگوں پر عمران خاں کی باتوں کا اثر ہونے کی اپنی وجوہ ہیں جن میں حکمرانوں کی بے حساب زر اندوزی ‘ بد حکومتی اور موروثی طرز عمل وغیرہ بجائے خود ایسے زبردست عوامل ہیں کہ اس سلسلے میں تو کوئی ثبوت پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہے جبکہ حالیہ پے بہ پے تاخیری اور غلط اقدامات ان سب کے علاوہ ہیں۔ پھر عام لوگوں کی جو حالت بنا کر رکھ دی گئی ہے ‘ حکمرانوں کی صورت حال کے مقابلے میں روز روشن کی طرح عیاں ہے اور یہ وہ عوامل ہیں جن کی طرف ایک ایسی آواز توجہ دلا رہی ہے جو نئی بھی ہے اور کسی داغ دار ماضی کی حامل بھی نہیں۔ حکمرانوں کی بے انداز دولت کے انبار پہلے بھی ڈھکے چھپے نہیں تھے‘لیکن اب چونکہ انہیں ایک نئے اور قابل اعتبار انداز میں پیش کیا جا رہا ہے‘ اس لیے اس کی اثر پذیری کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ لوگ نہ صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا کہا جا رہا ہے بلکہ یہ بھی کہ کہہ کون رہا ہے ۔ غالباً سونے پر سہاگہ اسی کو کہتے ہیں۔
چونکہ یہ معاملات کسی نہ کسی سطح پر عدالت میں بھی چل رہے ہیں اور کسی وقت بھی ان پر کوئی ایسا فیصلہ سامنے آ سکتا ہے جو حکومت کے اس اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو اور عمران خاں کا مسئلہ اس طرح سے بھی حل ہو جائے ورنہ اسے بیٹھ رہنے اور عوام کی انشراحِ صدر کرتے رہنے کے علاوہ کچھ اور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ یہ لوگ ایک دن تھک ہار کر خود ہی اٹھ کر واپس چلے جائیں گے تو اس کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔اس لیے حکومت کے لیے ایک ہی راستہ باقی رہ جاتاہے کہ اپنا اور ملک کا مزید نقصان کرنے کی بجائے سیدھے سیدھے درمیانی مدت کے انتخابات کروا کر اپنی جان چھڑوائے‘ اگرچہ وہ بھی انتخابی اصلاحات کے بغیر نہ صرف بے معنی ہوں گے جبکہ خود عمران خاں کو بھی قبول نہ ہوں گے چنانچہ اگر کوئی غیبی امداد اب تک عمران خاں کو میسر نہیں آ سکی تو حکومت کو بھی اس کی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ ایک بند گلی میں پہلے ہی داخل ہو چکی ہے۔
آج کا مطلع
کرتا ہوں جمع خود کو بکھرنے کے نام پر
جیتا ہوں اس نواح میں مرنے کے نام پر