موسم تبدیل ہو رہا ہے اور موسموں سے مالا مال اس ملک میں اس کا تبدیل ہونا کسی طور بھی ایک خبر سے کم نہیں ہے، بلکہ دور و نزدیک سے اس کی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں‘ مثلاً سوات‘ یعنی ملالہ کے علاقے میں موسم کی پہلی برف باری ہوئی ہے تو ملتان سے گرد آلود جھکڑوں کی اطلاعات ہیں‘ جو ملتان کے لیے ہرگز کوئی غیر معمولی صورت حال نہیں ہے کیونکہ بقولِ شاعر ؎
چار چیز است تحفۂ ملتان
گرد و گرما‘ گدا و گورستان
جبکہ ملتان سے اس خاکسار کا بھی یہ شعر یادگار ہے ؎
فاصلوں ہی فاصلوں میں جان سے ہارا ظفرؔ
عشق تھا لاہوریئے کو ایک ملتانی کے ساتھ
ہائی کورٹ کے ملتان بنچ میں کبھی کسی کیس کے سلسلے میں ملتان جانا ہوتا تو عاصیؔ کرنالی سے ملاقات کے لیے ضرور وقت نکال لیتا۔ کمال کے بذلہ سخ اور دلچسپ آدمی تھے۔ میرا ایک شعر ان کے بارے میں بھی ہے ؎
پہلے عاصیؔ تھا ظفر
پھر کرنالی ہو گیا
کچھ دوست یہ ضرور کہیں گے کہ یہ کیا شعر ہے؟ جبکہ میں ایسے اشعار کے حوالے سے کافی خودکفیل واقع ہوا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ضروری نہیں کہ ہر شعر دو جمع دو چا ر ہی ہو‘ بلکہ میں تو ایسے شعر کو شعر ہی نہیں سمجھتا۔ کل ہی کے 'دنیا سنڈے ایڈیشن‘ میں ممتاز نقاد اور شاعر پروفیسر سعادت سعید سے انٹرویو ئرنے اس بارے سوال بھی کیا کہ ظفر اقبال کے بعض اشعار میں جو بے معنویت یعنی Absurdityپائی جاتی ہے اس کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ اُن کے ہاں ایک وجودی معاملہ ہے‘ ان کے اندر کوئی شے ایسی موجود ہے جو انہیں لایعنیت کی طرف لے کر آتی ہے۔ اسی طرح شاعرہ پروین سجل کے ایک مضمون کا عنوان ہے ''ظفر اقبال بے معنویت کا درویش‘‘۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ کچھ بھی بے معنی نہیں ہوتا، حتیٰ کہ بے معنویت کے اپنے معانی ہوتے ہیں اور تھوڑا غور کرنے پر ان کی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔
ملتان میں گرد آلود ہوائوں کی اطلاع مجھے شاعرہ رفعت ناہید نے دی، جن کے پاس میرے کُلیات موجود ہیں اور ہر روز ان میں سے اپنے پسندیدہ اشعار نکال نکال کر مجھے ایس ایم ایس کرتی رہتی ہیں اور ان میں ایسے اشعار بھی ہوتے ہیں جنہیں میں نے نظرانداز کر رکھا ہوتا ہے لیکن دوبارہ دیکھنے پر مجھے اچھے لگتے ہیں۔ موصوفہ کا پہلا مجموعۂ کلام ''دیر سویر‘‘ کے نام سے ملتان ہی کے شاعر اور پبلشر شاکر حسین شاکر شائع کر رہے ہیں جن سے فون پر میری بھی بات ہوئی ہے۔ وہاں ان کی کتابوں کی دکان بھی ہے بلکہ انہوں نے یاد دلایا کہ چند سال پیشتر میں ان کی دکان پر آیا بھی تھا بلکہ پچھلے دنوں وہ میرے ساتھ خانیوال کا مشاعرہ بھی پڑھ چکے تھے۔ ملتان میں منیر فاطمی ایڈووکیٹ سے بھی ملاقات رہتی جو بہت عمدہ شاعر بھی تھے اور ''فنون‘‘ میں چھپا کرتے تھے۔
ٹیرس میں بیٹھا تھا کہ شام کی اذان ہو رہی اور ہوا میں مزید ٹھنڈک در آئی ہے اور دوبارہ کمرے میں آ گیا ہوں کہ موسم کے اپنے مزے بھی ہیں اور مجبوریاں بھی۔ صبح واک پر بھی ٹھنڈ لگتی ہے کیونکہ پائوں کے نیچے شبنمی ٹھنڈی گھاس اپنا رنگ جما رہی ہوتی ہے۔ شاید کل سویٹر بھی نکالنا پڑے۔ ایئرکنڈیشنر کی ضرورت بھی ختم ہوتی جائے گی اور لوڈشیڈنگ میں کمی بھی، لیکن خاطر جمع رکھیں اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے بھی منتظر رہیں یعنی ع
ایک بے داد گرِ رنج فزا اور سہی
اس کا ذمہ دار حکمرانوں کو ٹھہرانا اب پرانی بات ہو گئی ہے ،جن کے اپنے مسائل اور مشکلات ہیں‘ مثلاً آج ہی یہ اطلاع آئی کہ پشاور میں بلاول ہائوس کے لیے پانچ کنال زمین خرید لی گئی ہے جس پر زرداری صاحب نے کہا ہے کہ یہ بہت کم ہے‘ دس ایکڑ زمین خریدی جائے۔ کہیں سے گھوڑے پر سوار ایک بادشاہ گزر رہا تھا کہ ایک دیہاتی نے پوچھا‘ یہ کون ہے؟ جواب ملا کہ بادشاہ ہے۔ پھر پوچھا کہ اس کی رکابیں کیوں اتنا چمک رہی ہیں‘ تو جواب ملا کہ سونے کی ہیں‘ اس لیے۔ اس پر دیہاتی نے کہا کہ اگر بادشاہ ہے تو پھر چاہے گُڑ کی رکابیں بنا لے؟ سو‘ یہ اگر زرداری ہیں تو بلاول ہائوس کے لیے چاہے ایک سو دس ایکڑ زمین خرید لیں۔ ہمارے سیاستدانوں نے بجا طور پر سمجھ لیا ہے کہ عوام نے انہیں بھی تسلیم کر لیا ہے اور ان کی کرپشن کو بھی۔ اس لیے انہیں کسی بات پر کسی ردعمل کی کوئی فکر ہوتی ہے نہ اندیشہ۔
موسم تبدیل ہوتا ہے تو باقاعدہ اس کا اعلان کرتا ہے جبکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے اندر کا موسم تبدیل ہو رہا ہوتا ہے اور آپ کو اس کی خبر تک نہیں ملتی‘ مثلاً ؎
محبت بھی وہی ہے اور موسم بھی وہی لیکن
ہمارا اور ہو جانا‘ تمہارا اور ہو جانا
اسی طرح سیاسی موسم بدل رہا ہوتا ہے تو اس سے بھی کچھ لوگ بے خبر رہتے ہیں‘ اور اگر بے خبر نہیں بھی ہوتے تو بے خبر رہنا چاہتے ہیں۔ آج ہی کی ایک رپورٹ ہے کہ فلم سٹار میرا کسی تعلیمی ادارے میں گئیں تو اس پر طالبات نے انہیں دیکھ کر گو نواز گو کے نعرے لگانا شروع کردیے، حالانکہ وہ گو میرا گو کے نعرے بھی لگا سکتی تھیں‘ لیکن شاید سہولت یہ رہی کہ ا گر ایک بنا بنایا مقبول نعرہ موجود ہے تو نیا بنانے کی کیا ضرورت ہے؛ چنانچہ پہلے تو میرا یہ ماحول دیکھ کر وہاں سے بھاگ آئیں اور یہ کہا کہ انہیں اس سے اپنا بچپن یاد آ گیا تھا۔ ہمارے برعکس میرا کا حافظہ خاصا تیز لگتا ہے جو وہ کم و بیش نصف صدی کا واقعہ اب تک یاد رکھے ہوئے ہیں جبکہ ہمارا حال تو ایک زمانہ پہلے ہی یہ ہو چکا تھا کہ ؎
میں چلتے چلتے اپنے گھر کا رستہ بھول جاتا ہوں
جب اس کو یاد کرتا ہوں تو کتنا بھول جاتا ہوں
بھُلا دیتا ہوں گر وہ روکتا ہے پاس آنے سے
دوبارہ روکتا ہے، میں دوبارہ بھول جاتا ہوں
ظفرؔ ضعفِ دماغ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا
کہ جاتا ہوں وہاں اور واپس آنا بھول جاتا ہوں
چنانچہ عمر کا بھی ایک موسم ایسا ہوتا ہے کہ پچھلی باتیں بھولتی جاتی ہیں اور آئندہ کی کوئی بات ایسی ہوتی ہی نہیں کہ اسے یاد رکھا جائے؛ تاہم بھول جانے کا ایک اپنا مزہ ہے اور یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ ؎
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
چنانچہ اس آنے والے موسم کا استقبال کھلے بازوئوں سے اس لیے بھی کرنا چاہیے کہ کم از کم ایک ماہ تک یہ نہایت خوشگوار رہے گا یعنی جاڑا ہوگا تو سہی لیکن گلابی۔ اس کے بعد یہ موسم ہم سب کے ساتھ وہی کچھ کرے گا جو ہم ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں‘ بلکہ وہ جو حکمران ہمارے ساتھ کر رہے ہیں! ادھر سردی بڑھنے لگی ہے تو پیپلز پارٹی کا موسم گرم ہو رہا ہے۔ اطلاع کے مطابق لاہور میں ساہیوال ڈویژن کے اجلاس میں منظور وٹو اور اشرف سوہنا کے خلاف اس قدر نعرے لگے کہ زرداری صاحب کو مداخلت کرنا پڑی حتیٰ کہ وہ اجلاس نامکمل چھوڑ کر چلے گئے اور منظور وٹو کا عشائیہ بھی منسوخ کردیا ع
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آج کا مقطع
بدلا ہے بڑی مشکل سے، ظفرؔ
ترتیب کو بے ترتیبی سے