بلاول بھٹو زرداری
بلاول بھٹو زرداری نے لندن کے کشمیر ملین مارچ میں شریک ہو کر بہت اچھا کیا‘ اگرچہ ان پر بوتلیں پھینکی گئیں اور گو نواز گو کے نعرے بھی لگائے گئے اور انہیں اپنا خطاب مختصر کرنا پڑا اور پولیس نے انہیں بحفاظت وہاں سے نکال لیا اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ لوگ پیپلز پارٹی کو بوجوہ نوازلیگ کی بی ٹیم ہی سمجھتے ہیں؛ چنانچہ بلاول کو جو کام سب سے پہلے کرنا ہے وہ والد صاحب کا اس لحاظ سے قبلہ درست کرنا ہے کیونکہ اس وجہ سے پارٹی میں بھی ہر سطح پر ایک بددلی اور ناپسندیدگی پائی جاتی ہے۔ دوسرا ضروری کام یہ کہ اسے پارٹی کے بنیادی موقف کی طرف بھی لوٹ کر آنا ہے کہ یہ ایک لبرل‘ ترقی پسند اور لیفٹ کی خوشبو رکھنے والی جماعت ہے اور شروع شروع میں اسے پذیرائی بھی اسی سبب سے حاصل ہوئی تھی۔
اس کے علاوہ اسے ممکنہ حد تک ان خاص خاص انکلوں سے بھی فاصلے پر رہنا ہے جنہوں نے سابقہ دور میں اپنی شہرت تک دائو پر لگائے رکھی۔ نیز نام نہاد مفاہمت سے بھی ذرا ہٹ کر رہنا ہوگا جس کی حقیقت اب پوری قوم پر واضح ہو چکی ہے۔ اور‘ اگر وہ صرف اور صرف بینظیر بھٹو کا بیٹا بن کر ہی سامنے آتا ہے تو اس کے لیے فی الحال یہی کافی ہے۔ نیز اسے اتنے زیادہ محاذ کھولنے کی بھی کچھ ایسی ضرورت نہیں ہے۔ کشمیر اور عسکریت پسندوں کے حوالے سے اس کا موقف واقعی دلیرانہ ہے اور مستقبل میں اسے اس کا فائدہ ہی پہنچے گا۔
نئے صوبے اور ایم کیو ایم
سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں اختلافات اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور ایم کیو ایم نے پوری وضاحت کے ساتھ کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ سنجیدگی سے کردیا ہے بلکہ وہ ملک میں 20 صوبے بنانے کے حق میں ہے۔ اس بات میں تو کوئی کلام ہی نہیں کہ انتظامی سطح پر ملک کے جتنے زیادہ یونٹ بنیں گے‘ عوام کو ان کا اتنا ہی فائدہ ہوگا جبکہ پیپلز پارٹی کے مخالفانہ موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی نیت صاف نہیں ہے حالانکہ کراچی کو الگ صوبہ بنا دینے سے کوئی قیامت نہیں آ جائے گی جبکہ صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات میں غیر ضروری التوا کی مرتکب ہوتے ہوتے پہلے ہی انہیں ان کے اصل حقوق سے محروم کر رکھا ہے جس کی وجہ سے پے در پے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ نیا صوبہ بن جانے کے بعد ایم کیو ایم کسی وقت اپنی حتمی آزادی کا اعلان کردے گی تو یہ کسی بھی لحاظ سے قابلِ عمل نہیں ہے جبکہ اس مسئلے اور ان خدشات کا حل ایک یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نصف کراچی کو دیہی علاقے سے ملا کر ایک صوبہ اور اسی طرح دوسرا صوبہ بنا لیا جائے جس سے دو انتظامی یونٹ بھی بن جائیں گے۔ ایم کیو ایم کا مطالبہ بھی اصولی طور پر پورا ہو جائے گا اور پیپلز پارٹی کے مبینہ خدشات کا ازالہ بھی۔ اور‘ اگر ایم کیو ایم کو یہ قبول نہ ہو تو پھر اس کے بارے میں بدگمانی پیدا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا؛ تاہم یہ ایک بہت نازک معاملہ ہے اور اس سے کسی مرحلے پر امن و امان کا سنگین مسئلہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہ کام بے حد احتیاط سے کرنا ہوگا‘ کیونکہ بالآخر ملک میں نئے صوبے بنانا ہی پڑیں گے!
آئی ڈی پیز کا معاملہ
آئی ڈی پیز کے مسئلے پر حکومت سمیت میڈیا اور سوشل میڈیا کی بے حسی اور خود غرضی کا جتنا بھی ماتم کیا جائے‘ کم ہے۔ ایک لحاظ سے وہ اِدھر اُدھر بے یارومددگار پڑے ہیں‘ اور حکومتی سطح پر جو سہولتیں انہیں بہم پہنچائی گئی ہیں‘ وہ ان کی ضروریات سے بہت کم ہیں۔ حتیٰ کہ انہیں نقد
رقوم کی ادائی بھی تسلی بخش طریقے سے نہیں ہو رہی ہے اور اسی بات کو نہایت قطع رحمی سے نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ وہ ہمارے کل کی خاطر اپنے آج کے آرام و آسائش کی قربانی دے رہے ہیں۔ اوپر سے موسم سرما کی آمد آمد ہے جو ان کے لیے مزید مسائل پیدا کرنے کا باعث ہوگا۔ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ ان ستم زدگان کے لیے بروقت کوئی حکمت عملی ہی وضع نہیں کی گئی اور جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کسی کیمپ میں پڑا ہے تو کوئی کسی رشتے دار کے گھر۔ جبکہ ان کی رجسٹریشن بھی تسلی بخش حد تک نہیں کی جا سکی۔ اب جبکہ افواج پاکستان نے ضرب عضب کے طفیل کم و بیش اسی نوے فیصد علاقہ عسکریت پسندوں سے خالی کرا لیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جہاں تک ممکن ہو سکے انہیں واپس بھجوانے کا فوری انتظام کیا جائے۔ اگرچہ ان کے گھروں کی صورت حال کے حوالے سے بھی کسی خوش فہمی کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اس بارے بھی حکومت کی بے عملی واضح نظر آ رہی ہے۔
عمران عامیؔ کی شاعری
راولپنڈی سے اس نوجوان شاعر کے کلام کے کچھ نمونے موصول ہوئے ہیں جو اس روٹین کی شاعری سے بدرجہا بہتر ہے جو ہمارے آس پاس زور و شور سے تخلیق کی جا رہی ہے؛ تاہم اسے جدید اردو غزل کا مزید مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اپنی غزل کو اس نے جدید طرزِ احساس کا مزید تڑکا بھی لگانا ہے کہ فی زمانہ اس پیرایۂ اظہار کے بغیر نیا شاعر اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ پولیس میں اے ایس آئی ہوتے ہوئے بھی شعر و ادب کے ساتھ اپنا تعلق استوار کیے ہوئے ہیں۔ ان کے کچھ شعر دیکھیے:
میں سوچتا ہوں کہ دم لیں تو میں انہیں ٹوکوں
مگر یہ لوگ لگاتار جھوٹ بولتے ہیں
یہ روح کسی اور علاقے کی مکیں ہے
یہ جسم کسی اور جزیرے کا مکاں ہے
اک دیا اور تو کچھ کر نہیں سکتا، لیکن
شب کی دیوار میں دروازہ تو کر سکتا ہے
خاک چھانی بھی گئی، خاک اڑائی بھی گئی
خاک سے نکلا نہیں کوئی ستارہ یارا
جب کوئی بات ہی نہیں عامیؔ
آسماں سر پہ کیوں اٹھا لیا ہے
یہ روشنی تو کسی اور شے کی روشنی ہے
چراغ میں نے کہیں اور جا کے رکھا ہے
یہ سانپ یوں ہی نہیں سرسرا رہے، عامیؔ
یہاں کسی نے خزانہ دبا کے رکھا ہے
میری دعائیں اس کے ساتھ ہیں اور یہ غزل میں اپنی پہچان اور مقام ضرور قائم کرے گا۔
آج کا مطلع
کیا پوچھ رہے ہو نام اس کا
بس دیکھتے جائو کام اس کا