"ZIC" (space) message & send to 7575

بارے ٹرینوں کا کچھ بیاں ہو جائے

خبر تو یہ ہے کہ اگلے روز ٹرین ماموں کانجن کے سٹیشن پر پہنچی تو اس کا انجن سیل ہو گیا‘ حالانکہ خبر تو یہ ہوتی کہ ٹرین خیرو عافیت سے‘ اور بروقت اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گئی۔ یہ بتایا گیا کہ گھنٹوں سے گاڑی سٹیشن پر کھڑی ہے اور کوئی متبادل انجن دستیاب نہیں ہو رہا۔ ویسے یہ انجن کی ہمت اور عقلمندی ہے کہ وہ سٹیشن پر پہنچ کر بند ہوا‘ ورنہ اگر راستے میں ہی جواب دے جاتا تو اس کا کوئی کیا بگاڑ لیتا جبکہ اس میں مزید بگاڑ کی گنجائش بھی نہیں تھی کہ ریلوے انجنوں کا شیوہ بھی بقول منیر نیازی یہ ہے کہ ع 
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں 
یوں تو ہماری ریلوں کی رفتار کے حوالے سے بھی کئی کہانیاں مشہور ہیں جن میں سے ایک دو یہ ہیں کہ کسی جنگل میں سے گزرتے ہوئے گاڑی نہایت سست رفتاری سے چل رہی تھی جبکہ آس پاس کئی گائیں بھینسیں چر رہی تھیں۔ چلتے چلتے جب گاڑی بالکل ہی رُک گئی تو انجن کے ساتھ والے ڈبے سے ایک مسافر نے کھڑکی سے منہ نکال کر ڈرائیور سے پوچھا: 
''کیا بات ہے‘ اب بالکل ہی رُک گئے ہو‘‘ تو ڈرائیور نے جواب دیا کہ ایک گائے انجن کے سامنے آ گئی ہے جس کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں؛ تاہم خدا خدا کر کے گاڑی نے دوبارہ رینگنا شروع کردیا اور تھوڑی دور چلنے کے بعد پھر رُک گئی جس پر شخص مذکور نے دوبارہ کھڑکی سے سر نکالا اور ڈرائیور سے پوچھا: 
''کیا اب کوئی اور گائے انجن کے سامنے آ گئی ہے؟‘‘ تو ڈرائیور بولا: ''نہیں‘ وہی گائے پھر سامنے آ گئی ہے!‘‘ 
اسی طرح ایک گاڑی چلتے چلتے جب بالکل چیونٹی کی رفتار سے رینگنے لگی تو آخری ڈبے میں بیٹھے ایک مسافر نے کھڑکی سے گردن باہر نکال کر گارڈ سے پوچھا: 
''کیا آپ اس سے تیز نہیں چل سکتے؟‘‘ تو گارڈبولا: 
''چل تو سکتا ہوں لیکن مجھے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے!‘‘ 
ہماری مقبولِ عام حکومت پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ ریل گاڑیوں کی طرح انتہائی سست رفتار ہے اور اول تو فیصلے بہت دیر سے کرتی ہے اور پھر ان پر عملدرآمد میں بہت دیر لگا دیتی ہے‘ یعنی ریل گاڑیوں پر حکومت کا رنگ چڑھے نہ چڑھے‘ حکومت پر ریل گاڑیوں کا رنگ ضرور چڑھ چکا ہے اور حکومت کے انجن کے سامنے بھی ہمیشہ کوئی نہ کوئی گائے آ کے رہتی ہے‘ حکومت جسے ہٹانے کی کوشش میں لگی رہتی ہے تو اسی دوران وہ گائے دوبارہ انجن کے سامنے آ جاتی ہے۔ 
ایئر ٹریفک کے معاملات بھی ایسے ہی ہیں‘ جہاز یا تو ایئرپورٹ پر گھنٹوں کی تاخیر سے پہنچتے ہیں یا روانہ ہی بہت دیر سے ہوتے ہیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ حکومت کو سواریوں کے لیے ایئرپورٹ پر منجی بستروں کا بھی انتظام کرنا پڑے گا۔ سُبک رفتاری کا عالم یہ ہے کہ چند سال پہلے کئی شعراء کو بائی ایئر اسلام آباد پہنچنا تھا جن میں گلزار وفا چودھری بھی تھے۔ جہاز چھوٹا تھا‘ جب اس نے ٹیکسی کرتے کرتے ہی پندرہ بیس منٹ لگا دیئے تو کسی نے پوچھا: رفتار کا یہ عالم ہے تو اسلام آباد کب پہنچیں گے؟ تو گلزار وفا چودھری بولے: ''اگر وزیرآباد والا پھاٹک کھلا ہوا تو کوئی ایک گھنٹے میں پہنچ جائیں گے!‘‘ 
بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ مسافر منزلِ مقصود پر پہلے پہنچ جاتا ہے لیکن اس کا سامان کسی اور فلائٹ سے بعد میں پہنچتا ہے‘ وہ بھی اگر قسمت اچھی ہو۔ ریل گاڑیوں میں سامان کے مسائل سواریاں خود بھی پیدا کرتی ہیں۔ منقول ہے کہ ایک صاحب اپنے پانچ سات بچوں کے ہمراہ ریل گاڑی پر کہیں جا رہے تھے کہ ایک سٹیشن پر ٹکٹ چیکر آ دھمکا۔ موصوف کے پاس صرف اپنا ٹکٹ تھا۔ بچوں کا ٹکٹ پوچھے جانے پر بتایا کہ ان سب کی عمریں پانچ سال سے کم ہیں۔ ٹکٹ چیکر نے ان کا ڈیل ڈول دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا تو بولے: ''انہیں ماشاء اللہ خوراک کافی اچھی ملتی ہے‘ اس لیے ان کے قد بڑھ گئے ہیں ورنہ عمریں ان کی پانچ سال سے کم ہی ہیں‘‘۔ 
ٹکٹ چیکر نے بڑی سی پیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا کرایہ دیجیے کیونکہ اسے آپ نے سامان والے ڈبے میں بُک کروانا تھا۔ وہ صاحب جھگڑا کرنے لگے تو ٹکٹ چیکر نے کہا کہ یہ مفت نہیں جا سکتی اور ساتھ ہی اس نے اسے دروازے کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا کہ میں اسے نیچے پھینکتا ہوں تو وہ صاحب چیخ اُٹھے: 
''کیا ظلم کرتے ہو‘ کیا تم میری بیوی کو زخمی کرنا چاہتے ہو؟‘‘ 
جہاں تک ہوائی جہازوں کا تعلق ہے تو وہ کم از کم ریلوے انجنوں سے بہتر ہیں کہ اگر پرانے ہو جائیں تو پانچ سات پرانے جہاز بیچ کر ایک نیا یا اچھی حالت میں کوئی سیکنڈ ہینڈ جہاز خریدا جا سکتا ہے جبکہ ریلوے انجن پرانا ہو جائے تو کوئی اسے منہ نہیں لگاتا اور اسے سکریپ کی صورت میں ہی بیچا جا سکتا ہے۔ لطف یہ ہے کہ ایسے کئی انجنوں کے چوری ہو جانے کی اطلاعات بھی ہیں کہ یار لوگ انہیں پگھلا کر اُلو سیدھا کر لیتے ہیں‘ حتیٰ کہ بعض فونڈری والوں پر ماضی میں یہ الزام لگا کہ انہوں نے کئی جگہوں سے پٹڑی تک چوری کر کے پگھلا لی؛ تاہم اب اس سلسلے کی تازہ خبر یہ ہے کہ 
ملک بھر میں بچھائی گئی پٹڑیاں اتنی پرانی ہو چکی ہیں کہ قابلِ کار ہی نہیں رہیں اور حادثات کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ 
ٹرینوں کا تاخیر سے آنا تو ویسے بھی ایک معمول بن چکا ہے‘ یعنی اگر وہ آ جائیں۔ ورنہ تو کہیں راستے ہی میں کھڑی رہتی ہیں۔ ایک مسافر کہیں جانے کے لیے سٹیشن پر گاڑی کا انتظار کر رہا تھا کہ گاڑی خلافِ معمول عین وقت پر آ گئی۔ مسافر اس پر اتنا خوش ہوا کہ جا کر ڈرائیور کو مبارک باد دی اور اسے سگریٹ بھی پیش کیا‘ جس پر ڈرائیور بولا: 
''سگریٹ کاشکریہ لیکن یہ کل والی ٹرین ہے جو آج پہنچی ہے!‘‘ ٹرین کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ خودکشی میں سہولت رہتی ہے! 
اور اب اسی تناظر میں رفعت ناہید کی ایک نظم کے یہ آخری مصرعے: 
میں نے سر پٹڑی پر رکھ کر 
خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا ہے 
اور جدائی 
چھک چھک کرتی 
میرے سر پر آ پہنچی ہے! 
آج کا مقطع 
وفا ہے گھر سے بھی لازم‘ مگر دلوں میں، ظفرؔ 
محبتوں کا تو خانہ ہی اور ہوتا ہے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں