ماہنامہ ''ماہ نو‘‘ لاہور کے تازہ شمارے میں ''مصور بنانے کا عمل‘‘ کے زیر عنوان اپنے مضمون میں جناب قیصر نجفی رقم طراز ہیں کہ ''بقول ڈاکٹر سلیم اختر شیر افضل جعفری‘ علی اکبر عباس‘ ظفر اقبال اور صلاح الدین محمود وہ شاعر ہیں جنہوں نے غزل اور نظم میں نئے الفاظ برتنے کی سعی کی ہے لہٰذا شاعری میں الفاظ سے وابستہ ان کے تجربات بہت اہمیت رکھتے ہیں‘‘ پھر لکھتے ہیں کہ:
غزل کے دیگر تجربات کے ساتھ ہم ظفر اقبال کی ''اینٹی غزل‘‘ کا ذکر بھی ضرور کریں گے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اردو اصناف شعرو ادب میں سب سے زیادہ تجربات کی سنگباری اردو غزل کے تن نازک پر کی گئی ہے۔ اس نوع کی فنی بازیگری میں ماحصل کے طور سے جو مجروح غزل سامنے آئی ہے وہ آزاد غزل‘ مکالماتی غزل یا پھر ظفر اقبال کی اینٹی غزل کے نام سے موسوم ہوئی ۔اینٹی غزل کے حوالے سے ہم صرف اتنا کہیں گے کہ یہ ایک ایسا شاعرانہ اظہار ہے جو کسی بھی نوع کی شعری جمالیات سے عاری ہے۔ غزل‘ جس کا ظاہر و باطن لفظ و معنی کے حسن سے عبارت ہے‘ اسے سپاٹ‘ بے ترتیب اور لایعنی بنا کر فصاحت سے تہی کر دینا غزل کی پشت میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے اگر واقعی غزل کی پشت میں چھرا گھونپا ہے تو اس سے وہ جانبر کیسے ہو گئی‘ اسے تو انتقال کر جانا چاہئے تھا جبکہ ممتاز نقاد ڈاکٹر ضیاء الحسن کا کہنا ہے کہ ظفر اقبال نے اس مرتی ہوئی صنف سخن کو زندہ کر دیا ہے۔ آدمی کو ادبی رائے ضرور دینی چاہیے لیکن اپنی حیثیت کے مطابق۔ موصوف بھی عرصۂ دراز سے غزل کہہ رہے ہیں اور ان کی ''پرو‘‘ غزل نے جو تیر مارا ہے وہ سب کے سامنے ہے اور اب رہی سہی کسر وہ تنقید نگاری سے پوری کرنا چاہتے ہیں ؎
تو کار زمیں را نکو ساختی
کہ باآسماں نیز پرداختی
اینٹی غزل میری مختلف آوازوں میں سے ایک آواز ہے جس کے نشانات ہمیں میر سمیت کم و بیش ہر استاد کی شاعری میں ملتے ہیں اور یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے‘ نہ ہی اسے کسی طور پر اینٹی غزل کہا جا سکتا ہے جو کہ محض اسے مطعون کرنے کی خاطر گھڑا گیا ہے کہ ایک انگریزی محاورے کے مطابق 'کتے کو ایک بُرا نام دو اور اسے ہلاک کر دو۔‘ بقول شمس الرحمن فاروقی ‘ ظفر اقبال کی اس اینٹی غزل ہی کو ان کا اصل کام سمجھا گیا ۔ چلیے اسے بھی چھوڑیے ‘ قیصر نجفی صاحب کا میری اس غزل کے بارے میں کیا خیال ہے جو اینٹی نہیں ہے؟ چنانچہ نظم کو تو اینٹی غزل کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ غزل نہیں ہوتی اور غزل جو اس کے تمام ہیئتی اور فنی تقاضے پورے کرتی ہے اسے اینٹی غزل کیسے کہا جا سکتا ہے۔
پھر لفظ و معنی کے حسن سے قیصر نجفی صاحب کی کیا مراد ہے؟ جبکہ لفظ تو سارے کے سارے ہی حسین و جمیل ہوتے ہیں جو غزل میں استعمال ہو جائیں۔ نرم و ملائم الفاظ کے ساتھ کھردرے الفاظ کا ایک اپنا مزاج اور گنجائش ہوتی ہے جس سے ضروری نہیں کہ ان کے معنی بھی کھردرے اور حسن سے ماورا ہو جائیں جبکہ زندگی کی تلخ اور کھردری حقیقتوں کے بیان کے لیے الفاظ بھی ایسے ہی درکار ہوتے ہیں‘ ریشمی الفاظ وہاں کام نہیں آتے اور اگر الفاظ کو استعمال کرنے کا سلیقہ آتا ہو تو موضوع کی مناسبت سے وہ کھردرا نہیں بلکہ مناسب ترین لگتا ہے چنانچہ اگر تلخ اور کھردری حقیقتیں زندگی میں نسبتاً زیادہ ہیں تو یہ کھردرا ہٹ شاعری میں بھی آئے گی جبکہ اسے نرم و نازک اور ملائم الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کرنا بے سُود بھی ہے اور غیر فطری بھی۔ پھر یہ لایعنیت کیا ہوتی ہے ۔ ؟ لفظ سے تشکیل پانے والی کوئی چیز لایعنی یا بے معنی نہیں ہو سکتی کہ لفظ تو معنی دینے پر مجبور ہے۔ ویسے تو آپ کسی بھی شعر کو بے معنی قرار دے سکتے ہیں جبکہ ہر پیچیدہ شعر پر لایعنیت کی مہر لگائی جا سکتی ہے کہ فکر ہر کس بقدر ہمت ادست۔
محسن کاکوری اور دیگر اساتذہ کرام کی طے کردہ غزل کی تعریف بہت حد تک کالعدم ہو چکی ہے۔ اسے کھلے پن کی ضرورت تھی اور اس طرح میں نے اسے اس یبوست سے نکالنے کی کوشش کی ہے جس میں یہ گوڈے گوڈے دھنسی ہوئی تھی لیکن اس کا احساس کیا جاتا ہے نہ ادراک۔ سوال یہ ہے کہ اگر روزمرہ کے معاملات آپ اپنی زندگی سے نہیں نکال سکتے تو وہ شاعری کے لیے شجر ممنوعہ کیسے ہو گئے۔
اصل بات یہ ہے کہ بعض احباب کو یہ بات ہضم ہی نہیں ہو رہی کہ شعر کا فیشن تبدیل ہو چکا ہے اور ہر چیز اپنا فیشن خود تبدیل کرتی ہے کہ ہر پرانا فیشن اپنے آپ ہی ' باہر ہو جاتا ہے ۔ قاری کے تقاضے بھی تبدیل ہو چکے ہیں چنانچہ غزل کی روایتی صورت حال پر زور دیتے اور اس کے ساتھ چمٹے رہنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دھڑا دھڑ ایسی غزل وجود میں آ رہی ہے جو نہ صرف وقت سے بہت پیچھے رہ گئی ہے بلکہ باقاعدہ قاری بیزار ہونے کا مرتبہ حاصل کر چکی ہے اور یہ اسی کا ردعمل ہے کہ غزل میں نت نئے تجربات بھی کیے جا رہے ہیں اور لفظ کے استعمال میں رنگا رنگی بھی۔
میر جب کہتا ہے کہ ؎
یاں پلیتھن نکل گیا واں غیر
اپنی ٹکی لگائے جاتا ہے
تو اس لیے بھی کہ اسی موضوع پر ہزارہا بار پہلے بھی طبع آزمائی کی جا چکی تھی اور خود میر صاحب کا دامن اس سے بھرا ہوا تھا۔ مطلب یہ کہ شاعر منہ کا ذائقہ بھی بدلنا چاہتا ہے۔سوال یہ نہیں کہ شاعر کو اس کا اختیار یا اجازت کس حد تک حاصل ہے کیونکہ اسے اس کام کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ یہ لائسنس آگے تقسیم بھی کرتا ہے۔ شاعری محض رونا پیٹنا نہیں بلکہ اس میں زندگی کا ہر رنگ آنا چاہیے اور شاعر روز مرہ کی چیزوں یا معاملات سے آنکھیں نہیں چرا سکتا نہ ہی عمر بھر سوز و گداز پر مشتمل شاعری ہی پر اکتفا کر سکتا ہے۔
صاحب موصوف نے خاکسار کی غزل میں بے ترتیبی کی شکایت کی ہے۔ شاعر ہمیشہ ناک کی سیدھ میں نہیں چلتا۔ پھر یہ کہ بے ترتیبی خود کسی ترتیب کے بغیر نہیں ہوتی بلکہ میں تو بسا اوقات خوش ترتیب مصرعوں کو خود ہی بے ترتیب کر دیتا ہوں‘ اس لیے اس پر حیران یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ترتیب ہمیشہ ہی پسند خاطر نہیں رہتی جبکہ ہمارے اردگرد بے ترتیب اشیاء کا پہلے ہی ایک انبار لگا ہوا ہے‘ وہ آسمان کے ستارے ہوں یا جنگل کے درخت جبکہ غیر ضروری طور پر ہر چیز میں ترتیب کی تلاش کرنے بھی نہیں بیٹھ جانا چاہیے اور بے ترتیبی کے حسن سے بھی لطف اندوز ہونے کی توفیق آپ میں ہونی چاہیے۔ میں نے ہمیشہ اپنی مرضی کی شاعری کی ہے‘ محترم قیصر نجفیوں کی پروا کئے بغیر کہ وہ کیا کہیں گے اور ہر طرح کا شعر کہا ہے۔ ورائٹی میرا کریز ہے اور شاید ہر کسی کی پسندیدہ ڈش بھی ۔ میں نے جو کچھ کہا ہے اسے اون بھی کرتا ہوں اور اسے مسترد اور منسوخ کرنے کے لیے ہر وقت تیار بھی۔ قیصر نجفی صاحب نے جو نوٹس لیا ہے اس کے لیے ان کا شکریہ‘اور مختصراً یہ کہ ع
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
آج کا مطلع
رستے سے اگرچہ ہٹ گیا ہے
دل کے اندر سمٹ گیا ہے