کل سردی معمول سے خاصی زیادہ تھی۔ ایسا لگتا تھا‘ جاڑا پیدا یعنی شروع ہوتے ہی جوان ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ میں ہیٹر کے سامنے بیٹھا کپکپا رہا تھا۔ لاہور اور اوکاڑہ میں جہاں جہاں میری آل اولاد تھی‘ سب کو اس شدید موسم سے خبردار کیا اور اس سے حتّی الامکان بچنے کی تلقین کی حالانکہ وہ سب ماشاء اللہ پہلے ہی کافی خبردار تھے۔ بس یہ تھا کہ لوگ ابھی اس بلا کی سردی کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ اوپر سے دھند نے قہر ڈھایا ہوا تھا اور کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اندھیرا زیادہ ہے یا سردی۔
منقول ہے کہ دو انگریز مر کر عالمِ بالا میں پہنچے تو ایک نے دوسرے سے پوچھا:
''تمہاری موت کس طرح واقع ہوئی تھی؟‘‘
''میں تو سردی سے مرا تھا‘‘ اس نے جواب دیا۔
''اور تم؟‘‘ دوسرے نے سوال کیا۔
''میں حیرت سے مر گیا تھا!‘‘ اُس نے جواب دیا۔
''کیا مطلب؟‘‘ اس نے پھر سوال کیا۔
''بات یہ ہوئی‘‘ پہلا بولا، ''میں ایک دن دفتر سے جلدی فارغ ہو کر آ رہا تھا۔ جب گھر کے قریب گلی کے موڑ پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ایک اجنبی شخص میرے گھر میں داخل ہو رہا تھا‘ میں جلدی سے گھر میں داخل ہوا اور بیوی کو آواز دی جو اپنے کمرے ہی میں تھی۔ میں نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس نے تو کوئی آدمی نہیں دیکھا۔ میں نے پورے گھر کی تلاشی لی لیکن اس کا کوئی نام و نشان نہیں تھا حالانکہ میں نے خود تھوڑی دیر پہلے اُسے گھر میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ یہ حیرانی میرے لیے اس قدر شدید تھی کہ جان لیوا ثابت ہوئی‘‘۔
''کم بخت! فریج بھی کھول کر دیکھ لینا تھا‘‘ سردی سے مرنے والے نے جواب دیا۔
اتنے میں سانحۂ پشاور کے صدمے سے نڈھال کشور ناہید کا فون آ گیا۔ کہا‘ میں نے اپنی توجہ تبدیل کرنے کے لیے تمہاری کتاب (لاتنقید) پڑھنی شروع کی تھی (گویا بصورت دیگر وہ اس قابل نہیں تھی!) اس پر اپنی ماہرانہ رائے کا بھی اظہار کیا کہ کئی مضامین بہت اچھے ہیں۔ ساتھ ہی یہ تشویش انگیز خبر بھی سنائی کہ بھارت میں ہمارے مایۂ ناز نقاد اور شاعر‘ ڈاکٹر شمیم حنفی شدید بیماری کی حالت میں داخلِ ہسپتال ہیں‘ جس پر میں نے یاد دلایا کہ بے مثل افسانہ نگار نیّر مسعود بھی کافی عرصے سے صاحبِ فراش ہیں۔ دونوں کے لیے اپنی اپنی فکرمندی کا اظہار کیا اور دعائے صحت کی۔ پھر مثالی بربریت اور درندگی کا شکار بچوں کے غم میں لکھی ہوئی اپنی تازہ نظم سنائی۔ میں نے کہا‘ اگر یہ نظم تم نے اپنے کالم میں نہ چھاپنی ہو تو مجھے بھیج دو تاکہ میں اسے اپنے کالم کی زینت بنا لوں۔ کہنے لگی‘ میں اپنے کالم میں نہیں چھاپتی‘ تمہیں بھیج دیتی ہوں‘ تم اپنا ای میل ایڈریس بتائو۔ میں نے کہا‘ میں شریف آدمی ہوں‘ ای میل کا گورکھ دھندا میرے بس کی بات کہاں۔ پوچھا کہ تم اپنا کالم اخبار میں کیسے بھیجتے ہو‘ میں نے کہا‘ فیکس کے ذریعے۔ پھر کہا‘ چلو فیکس نمبر ہی بتا دو۔ میں نے کہا کہ میری تو فیکس مشین خراب ہے‘ میں تمہیں اقتدار جاوید کا فیکس نمبر دیتا ہوں‘ اس کے ذریعے بھیج دو۔ بولی‘ مجھے تو اقتدار جاوید بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ میں نے کہا‘ ہو سکتا ہے تم اقتدار جاوید کو بھی کوئی خاص اچھی نہ لگتی ہو!
مکرر منقول ہے کہ متعدد کائو بوائز ایک ریستوران میں چائے وغیرہ پی رہے تھے کہ ان میں سے ایک نے وہاں بیٹھے ہوئے پانچ افراد میں سے ایک کے بارے میں کہا کہ وہ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔
''ان میں سے کون سا تمہیں اچھا نہیں لگتا؟‘‘ ساتھیوں میں سے ایک نے پوچھا۔
''وہ جس کے داڑھی ہے!‘‘ اس نے جواب دیا۔
''وہ تو سبھی داڑھی والے ہیں!‘‘ جواب ملا۔
''وہ جس نے سُرخ ٹوپی پہن رکھی ہے‘‘ وہ بولا۔
''سرخ ٹوپی بھی سب نے پہن رکھی ہے‘‘ جواب ملا۔
''وہ جس نے گلے میں رومال باندھا ہوا ہے‘‘ اُس نے پھر وضاحت کی۔
''رومال بھی سب نے گلے میں باندھ رکھا ہے‘‘ جواب دیا۔ اس پر اس نے پستول نکالا اور ڈز ڈز کر کے اُن میں سے چار کو ڈھیر کردیا اور کہا:
''وہ جو بچ رہا ہے نا‘ وہ مجھے زہر لگتا ہے!‘‘
اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کشور ناہید اور اقتدار جاوید ایک دوسرے کے بارے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کس طرح کریں گے۔ سردی کی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ مجھے بخار ہی نہ ہو رہا ہو۔ ویسے بھی مجھے دو تین دن سے لگاتار چھینکیں آ رہی تھیں اور خوش تھا کہ کوئی مسلسل یاد کر رہا ہے؛ چنانچہ تھرما میٹر لگایا تو سو درجے نکلا۔ فرح (بہو) نے پیناڈول کی دو گولیاں نگلوائیں اور رضائی میں گھس جانے کو کہا۔ کوئی دو تین گھنٹے بعد بخار اُترا تو اقتدار جاوید سے نظم کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ شام تک انہیں کوئی فیکس وصول نہیں ہوئی۔ پھر یاد آیا کہ اس نے اپنے آپ کو ایک بُری عورت ویسے ہی نہیں کہہ رکھا! سو‘ دل ہی دل میں کچھ مہذب قسم کی گالیاں اس کے لیے ارسال کیں۔ پھر یہ سوچا کہ مصروفیت کی وجہ سے شاید ایسا نہ کر سکی ہو اور نظم کل بھیج دے‘ کیونکہ ایک بُری عورت کسی وقت بھی ایک اچھی عورت بن سکتی ہے۔ ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ منیر نیازی نے ایک بار اُسے کہا تھا کہ میں اپنی بیوی کو تم سے پردہ کرائوں گا!
چنانچہ بخار اپنا حصہ وصول کر کے تھم گیا ہے‘ یعنی ؎
مکاں لرزتے رہے‘ سیلِ غم گزر بھی گیا
چڑھا ہی تھا ابھی دریا‘ ابھی اُتر بھی گیا
آج کا مطلع
شاید اپنے ہی کسی کام سے باہر نکلا
اِک ستارہ جو مری شام سے باہر نکلا