حکومت تو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کے حق میں بھی نہیں تھی اور قوم کو نام نہاد مذاکرات ہی کی میٹھی گولی پر ٹرخایا جا رہا تھا‘ جس سے وہ مجتمع بھی ہو رہے تھے اور مضبوط تر بھی؛ حتیٰ کہ فوج کو ازخود کارروائی کا آغاز کرنا پڑا اور طوعاً و کرہاً حکومت کو بھی اس کی حمایت کرنا پڑی کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ کار ہی نہیں تھا۔ اب قوم اور سیاست دانوں کو سانحۂ پشاور نے یکسو کردیا ہے تو اس پر بھی زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں۔ وہ جماعتیں دہشت گردوں کے حوالے سے جو خیالات و جذبات رکھتی تھیں‘ وقت کی نزاکت کے پیش نظر ان میں یہ تبدیلی محض عارضی ہے؛ کیونکہ اتنے پختہ نظریات و خیالات آناً فاناً ختم نہیں ہوا کرتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ اپنے اصلی رنگ پھر سے دکھانے لگیں گے۔
اہلِ سیاست بالعموم یہ بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے کہ ان کا نظریہ‘ خیالات یا تجزیہ غلط تھا اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اب اہلِ سیاست‘ جیسا کہ خبریں آ رہی ہیں‘ اس سلسلے میں کوئی ایکشن پلان تیار کریں گے جو کہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا تو اس سے بھی کوئی خاص توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتیں کیونکہ یہ لوگ اس کی اہلیت ہی نہیں رکھتے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اب تک ایک ہی کام کرتے رہے ہیں اور وہ ہے زراندوزی اور اس کو ٹھکانے لگانے کے مختلف طریقوں کی ایجاد۔ یہ نااہلی اس قدر مسلّم ہے کہ اس کے بارے میں دورائیں ہو ہی نہیں سکتیں؛ چنانچہ یہ لوگ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے جو جو پلان بھی تشکیل دیں گے ان میں فوج کا کوئی حقیقی حصہ نہیں ہوگا کیونکہ ایک تو وہ پلان ویسے بھی ناقص اور ناقابلِ عمل ہوگا کیونکہ یہ اس سطح کے سیاستدانوں کے بس کا روگ ہی نہیں ہے جو ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔
یہ بھی ایک بہت بڑا مبالغہ ہوگا کہ فوج ان کے ساتھ مل کر کوئی پلان ترتیب دے گی اور اگر ایسا ہوا بھی تو وہ فوجی نقطۂ نظر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوگا کیونکہ ایک تو یہ کام ہی صرف اور صرف فوج کا ہے۔ سیاست دان جس طرح حکومت چلا رہے ہیں یا اب تک انہوں نے جس طرح چلائی ہے‘ وہ فوجی حکمت عملی کو بھی اسی اہلیت کے ساتھ روبراہ کر سکتے ہیں۔ سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ فوج کو سیاست دانوں پر اعتماد ہی نہیں ہے کیونکہ ان اکابرین کے ماضی کو پیش نظر رکھا جائے تو ان کے بارے میں کسی خوش فہمی کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا جو کہ ملک چلانے کے حوالے سے ان کی ترجیحات ہی سے ظاہر ہے اور جس کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ عوام کی بنیادی ضرورت کے جو محکمے ہیں‘ وہ صحت ہو‘ تعلیم ہو یا دیگر معاملات‘ ان کی ابتری بجائے خود ایک عبرت ناک منظر پیش کرتی ہے۔ کرپشن کا یہ عالم ہے کہ اسے سکۂ رائج الوقت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے‘ اور یہ محض نچلی یا بالائی سطح پر ہی نہیں‘ بلکہ اس سے نیچے کوئی بھی سطح بچی ہوئی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اب اکثر ڈی سی او حضرات بھی کھل کر اسی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے ہیں اور ان کے دفاتر میں کھلے عام یہ کاروبار معمول کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ گڈگورننس کا کہیں شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ان اصحاب پر اعتبار کیا جائے۔
فوج اگر ملکی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے تو اس کا جواز خود سیاستدان فراہم کرتے رہے ہیں۔ آخر ہمسایہ ملک بھارت جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا‘ کیا وجہ ہے کہ اس میں ایک بار بھی مارشل لاء نہیں لگا بلکہ ایک بار اُن کے آرمی چیف نے ایک تقریب میں جب یہ بات فخریہ طور پر بیان کی کہ ہمارے ہاں ایک بار بھی مارشل لاء نہیں لگا تو حکومت کی طرف سے اس کی باقاعدہ جواب طلبی ہوئی کہ آپ ہوتے کون ہیں مارشل لاء کا نام بھی لینے والے؟ اس لیے کہ وہاں سیاست دان صرف پیسہ ہی نہیں بناتے نہ ہی پیسے کے لیے سیاست کرتے ہیں بلکہ ملکی معاملات کے حل پر بھی ان کی توجہ مرکوز رہتی ہے‘ بیشک وہاں کرپشن بھی کوئی اجنبی عنصر نہیں ہے۔
حکومت اپنی کارگزاریوں کی مہم پر جو اربوں روپے سرکاری خزانے سے خرچ کر رہی ہے یہ بجائے خود صاف اور سیدھی کرپشن ہے جبکہ اس میں بھی جھوٹ کا تناسب سچ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اور‘ جس طرح موجودہ حکومت نے الیکشن جیتا ہے اور برسراقتدار آئی ہے اس نے اس کی اخلاقی ساکھ کو مزید نیچے گرا دیا ہے اور سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ معاملات کا صحیح ادراک بھی نہیں رکھتی۔ ایک چھوٹی سی مثال لیجیے کہ اب تک فرقہ پرستی کو ہوا دینے والے لٹریچر کے خلاف بھی کوئی نتیجہ خیز کارروائی نہیں ہو سکی؛ حتیٰ کہ حکومت سے تنخواہ لینے والے امام مسجد اپنی شعلہ بیانیوں سے حکومت ہی کے لیے مسائل کھڑے کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور وہ فساد فی الارض کے سب سے بڑے نقیب بنے ہوئے ہیں۔
چنانچہ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے‘ اگر آپریشن ضرب عضب کامیاب بھی ہوا تو ایک حد تک ہی ہوگا کیونکہ وزیرستان کے علاوہ بھی شہروں میں کئی علاقے دہشت گردوں کا گڑھ بن چکے ہیں‘ وہاں تو ہر جگہ فوج موجود نہیں ہوتی اور اسی پولیس و دیگر سول اداروں پر انحصار کرنا پڑے گا جن کی نااہلی مکمل طور پر ثابت ہو چکی ہے جبکہ دہشت گردوں کے مقابلہ کے لیے انہیں نہ وہ جدید اسلحہ میسر ہے نہ دیگر تکنیکی مشینری اور ضروری ٹریننگ‘ اس لیے شہری آبادی کے لیے مسائل اور عدم کا تحفظ تو ویسے کے ویسے ہی رہیں گے۔ اگر دہشت گردوں کی لیڈر شپ کو ملک عزیز اور افغانستان میں ختم یا کمزور بھی کردیا گیا تو ان کے اصل مراکز دوسرے ممالک‘ جن میں کئی اسلامی ملک بھی شامل ہیں‘ کے اندر بھی دہشت گردوں کو رہنمائی اور کمک مہیا کرنے کے قابل ہوں گے۔ اس لیے مقامی یا وقتی کامیابیوں پر گھوڑے بیچ کر سو جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ ابھی پھانسیوں پر بھی ان کے ردعمل کے ممکنات کو پیش نظر رکھنا ہوگا اور اس خطرناک سفر کے خاتمے کی زیادہ امید نہیں رکھی جا سکتی۔ (ختم)
دعا کی اپیل: ہمارے شاعر دوست وصی شاہ کی والدہ محترمہ اور ہمارے شہر اوکاڑہ کے ڈی پی او جناب بابر بخت شدید علیل اور داخل ہسپتال ہیں۔ قارئین سے ان کی جلد اور مکمل صحت یابی کے لیے دعا کی اپیل ہے۔
آج کا مقطع
چھائی ہوئی تھی ابر کی صورت زمیں، ظفرؔ
سمٹا ہوا تھا اپنے کنارے میں آسماں