صاحب اسلوب اور نظم کے نہایت اہم شاعر مجید امجد پر یہ غالباً پہلی مبسوط کتاب ہے جس میں اس کے فکر و فن اور شخصیت کا احاطہ اور تجزیہ کیا گیا ہے اور اس طرح تشنگانِ ادب کی ایک بڑی ضرورت کو پورا کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ کتاب کو سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی گزرگاہِ جہاں پر:مجید امجد کا سفر حیات و سفر ذات‘نظم کے ایوان کی اک اک سل:مجید امجد کی نظم نگاری و شعریات کے خاص خاص پہلو‘مجید امجد کی نظم کی جمالیات: ثقافت و فطرت کے سیاق میں‘ زندگیوں کے صحن میں کُھلتے ...قبروں کے دروازے:مجید امجد کی نظم میں حُزن کا مطالعہ‘مجید امجد کی نظموں میں اجل‘مجید امجد کی آخری دور کی نظمیں‘اور مجید امجد کی غزل گوئی۔
کتاب کا پسِ سرورق ممتاز نقاد اور شاعر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے تحریر کیا ہے‘ جس میںوہ لکھتے ہیں:
''مجید امجد کی ولادت پر ایک صدی گزر چکی ہے اور وفات پر چار دہائیاں بیت گئی ہیں۔اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میں اب بیشتر ناقدین اس بات کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ مجید امجد اُردو نظم کے چند اہم شعرا میں شامل ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے‘ مجید امجد کی شہرت پھیلتی اور اہمیت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اسی نسبت سے ان کی شخصیت اور فن پر مضامین اور مرتبات کا دائرہ پھیلتا چلا جارہا ہے۔تاہم ابھی مربوط کتابوں کی بہت کمی ہے۔کسی بھی صاحبِ فن پر اچھا برا مضمون لکھ ڈالنا سہل ہے لیکن مربوط کتاب لکھنا مشکل ہے کیونکہ یہ کام گہرے مطالعے‘باریک بینی اور ارتکاز توجہ کا طالب ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیئر نے مجید امجد کے مختلف پہلوئوں پر چند منتشر مضامین لکھنے کی بجائے ایک مربوط کتاب تحریر کر دی ہے جو اس منفرد شاعر کے افکار و اسالیب کے نمایاں گوشوں پر ایک اہم اور پسندیدہ کتاب ثابت ہوئی ہے۔ڈاکٹر ناصر نے تمام دستیاب مواد کا مطالعہ بڑی عرق ریزی سے کیا ہے۔ اس پر تنقیدی نظر ڈالی ہے اور حسبِ ضرورت نئی توجیہات کر کے ایک ایسی کتاب تحریر کی ہے جو امجد شناسی کے ذخیرے میں منفرد اضافہ ہے۔انہوں نے مجید امجد کے تمام کلام کا موضوعاتی اور فنی جائزہ اس عمدگی سے لیا ہے کہ تمام ادوار کی فکری اور فنی اہمیت واضح ہو گئی ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے کسی دور کی شاعری کو کم اہمیت نہیں دی جو ان کی تنقیدی بصیرت پر دلالت کرتی ہے۔میری خواہش ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ ہر اس شخص کو کرنا چاہیے جسے مجید امجد کی تفہیم سے دلچسپی ہے۔‘‘کتاب کا انتساب جھنگ ہی کے شاعر صفدر سلیم سیال کے نام ہے۔کتاب کے پیش لفظ میں مصنف نے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انیس سو ساٹھ ستر کے بعد کی اردو نظم(خصوصاً جو پاکستان میں لکھی گئی) پر سب سے زیادہ اثرات مجید امجد کے ہیں۔اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ مجید امجد نے آس پاس کی چھوٹی چھوٹی‘ مگر نظر انداز کر دہ اشیا کو اہمیت دی‘ ان کی حاشیائی حیثیت کا خاتمہ کیا‘ مقامیت کی جمالیات کا شعور دیا۔
زندگی ‘ثقافت اور تاریخ سے متعلق مثالی‘کبیری بیانیے پیش کرنے کی بجائے‘آدمی کو حقیقی طور پر درپیش معمولی زندگی(بہ معنی معمول کی زندگی اور عام سطح کی زندگی) میں سے شاعری کشید کرنے کا ہنر متعارف کروایا۔(کتاب سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپی اور قیمت 600روپے رکھی ہے)
ڈاکٹر صاحب کا تعلق بھی مجید امجد کی طرح جھنگ سے ہے اور غالباً ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا بھی۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مجید امجد کو ان دو اہم نقادوں کے میسر آنے میں شاید بنیادی حصہ جھنگ کا بھی ہے‘ ورنہ جھنگ سے باہر کے نقادوں نے اس بے بدل شاعر کو نظر انداز کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔جھنگ کو ویسے بھی ایک چھوٹے سے سکول آف تھاٹ کی حیثیت حاصل ہے جبکہ شیر افضل جعفری‘جعفر طاہر اور نذیر احمد ناجی سمیت اس شہر نے کئی ایک نامور شخصیتیں پیدا کیں۔خیر‘ یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا‘ نوجوان نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے جس ژرف نگاہی سے اس کام کو سرانجام دیا ہے‘ وہ یقینا قابلِ داد ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی تحریر جنّاتی اور ثقیل تنقیدی اصطلاحات سے تقریباً پاک ہے ‘ اور ‘بالعموم سلیس زبان استعمال کی گئی ہے بلکہ اگر انہیں ''سہلِ ممتنع‘‘ کا نقاد کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔گوپی چند نارنگ کے بعد آپ ان معدودے چند نقادوں میں شامل ہیں جن کی تنقید باقاعدہ تخلیق کا درجہ رکھتی ہے۔
مجید امجد ایک کم گو اور درویش صفت آدمی تھے۔کتابوں کے رسیا شروع سے ہی تھے جس کا ذکر فاضل مصنف نے بھی کیا ہے جبکہ ہم عصر شاعری سے بھی وہ اپنے آپ کو باخبر اور اپٹو ڈیٹ رکھتے تھے۔اس واقعہ کا ذکر میں کہیں پہلے بھی کر چکا ہوں کہ ان کی تعیناتی اور رہائش ساہیوال میں تھی جبکہ مقدمات کی پیروی کے سلسلے میں‘ میں بھی اوکاڑہ سے وہاں آیا جایا کرتا تھا۔گُلافتاب شائع ہوئی تو مجھے اس کی مبارکباد دی اور کتاب کا مطالبہ بھی‘ جو میں محض تساہل کی وجہ سے خود پیش نہ کر سکا تھا اور اس پر شرمندہ تھا‘چنانچہ ایک دو روز تک کتاب پہنچانے کا وعدہ کیا۔لیکن کافی دنوں تک ساہیوال جانا ہی نہ ہو سکا۔ایک شام میں گھر میں موجود تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجنے پر باہر نکلا تو امجد صاحب کھڑے تھے۔میں مزید شرمندہ ہوا اور کتاب پیش کر کے سرخرو ہوا۔امجد صاحب کی زندگی کا آخری دور ناقابل رشک حالات سے معمور رہا جس کا بیان ڈاکٹر صاحب نے پوری وضاحت اور تفصیل سے کر دیا ے‘ حتیٰ کہ جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے پاس کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ حتیٰ کہ ان کا ملازم بھی گھر کو باہر سے تالا لگا کر کہیں کھسکا ہوا تھا۔ڈپٹی کمشنر جاوید قریشی نے ان کی میت برائے تدفین جھنگ بھجوانے کے لیے ایک ایسے ٹرک کا انتظام کیا جو مویشیوں کی بار برداری کے لیے مخصوص تھا‘ البتہ موصوف نے اسے دھلوا کر اس کی آلائشیں صاف کروا دیں‘ حالانکہ وہ اس مقصد کے لیے کسی ایمبولینس کا بھی انتظام کر سکتے تھے۔جنازے میں صرف چند افراد شامل ہوئے جو مقامی ادیبوں اور جاننے والوں میں سے تھے‘ حتیٰ کہ میت کے ساتھ جھنگ جانے کا بھی ماسوائے ایک آدھ کے‘ کسی نے تکلف نہ کیا۔بعد میں ان کی قبر پختہ کروانے کے لیے ساہیوال سے چندہ اکٹھا کر کے کچھ رقم بھجوائی گئی۔امجد صاحب ساہیوال میں جانِ محفل ہوا کرتے تھے اور شہر کے جوگی ہوٹل میں ہر شام منڈلی جما کرتی جس میں منیر نیازی‘ اسرار زیدی‘ گوہر ہوشیار پوری ‘ معزالدین احمد‘ جعفر شیرازی‘ اشرف قدسی‘قیوم صبا‘ حاجی بشیر احمد بشیر‘ناصر شہزاد ‘ محمد امین‘ مراتب اختر اور یٰسین قدرت وغیرہ شامل ہوا کرتے۔اگر کبھی شام تک میں وہاں ٹھہر جاتا تو میں اور نذیر ناجی بھی ان محفلوں میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کر لیتے۔ساہیوال ان کے دم قدم سے اس زمانے میں صحیح معنوں میں آباد تھا ؎
سب کہاں ‘کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صُورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
آج کا مطلع
مرنے والے مر جاتے ہیں
دنیا خالی کر جاتے ہیں