پی ٹی آئی کو ڈی سیٹ کر کے مصیبت
میں نہیں پڑ سکتے... شیخ آفتاب
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی کو ڈی سیٹ کر کے مصیبت میں نہیں پڑنا چاہتے‘‘ کیونکہ دھرنوں والی مصیبت میں پہلے ہی پڑنے والے ہیں اور ایک وقت میں ایک ہی مصیبت کو بھگت سکتے ہیں جبکہ دہشت گردوں نے الگ مصیبت میں ڈال رکھا ہے حالانکہ ان کے ساتھ وزیراعظم اچھے خاصے مذاکرات کروا رہے تھے اور دونوں فریقوں کا ٹھیک ٹھاک گزارہ ہو رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت کو اس وقت بہت سے چیلنجز درپیش ہیں‘‘ اور حکومت خود ماشاء اللہ عوام کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے جبکہ زندہ قومیں ہر چیلنج کے ساتھ صبر و شکر کے ساتھ مقابلہ کیا کرتی ہیں اور صابر و شاکر کہلاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ بھی صبر و شکر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے غیر حاضر ارکان سے سپیکر کو آگاہ کرنا سپیکر آفس کی اپنی آبزرویشن ہے اور حکومت کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے‘ بلکہ حکومت بیچاری تو اپنے کاروبار میں الجھی ہوئی ہے اور اس کے علاوہ اس کا تعلق کسی بھی چیز کے ساتھ نہیں ہے اور حکومت چلا بھی چند مخلص بیوروکریٹس ہی رہے ہیں کیونکہ سب کو مل جل کر ہی کام کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز روزنامہ ''دنیا‘‘ سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت سپریم جوڈیشل کمیشن
کے قیام کا مطالبہ تسلیم کرے... وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''حکومت سپریم جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ تسلیم کرے‘‘ کیونکہ اب تو میں نے بھی کہہ دیا ہے اس لیے حکومت کو یہ کام کر ہی دینا چاہیے جبکہ میں اس سے دوبارہ یہ مطالبہ کرنے کے لیے دستیاب نہیں ہوں گا کیونکہ پارٹی چیئرمین جناب آصف علی زرداری نے کارکنوں کے ساتھ رابطہ کرنے کی میری ڈیوٹی لگا دی ہے اور اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ میں ان کی دراز دستیوں ہی کے نتیجے میں کھیت ہورہوں اور یہ کام کسی اور اللہ کے بندے کو کرنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت کو اس ضمن میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے‘‘ کیونکہ اپنے عہد میں ہم بھی تاخیر نہیں کیا کرتے تھے اور سارا کام وقت سے پہلے ہی نپٹا دیا کرتے تھے اور دوسرا فریق حیران رہ جایا کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ قومی سلامتی کے مفادات کا سوال ہے‘‘ جس کا مطلب اپنے ہی مفادات ہیں کیونکہ حکمران بھی تو قوم ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان اس وقت حالتِ جنگ میں ہے‘‘ اور اگر حکومت اس کا احساس کرے تو اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد ہم بھی حالتِ جنگ ہی میں ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں معمول کا ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کو ازسرِ نو منظم
اور فعال کریں گے... پرویز ملک
مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر پرویز ملک نے کہا ہے کہ ''مسلم لیگ (ن) کو ازسر نو منظم اور فعال کریں گے‘‘ اگرچہ اس کی کوئی خاص ضرورت اور گنجائش نہیں ہے کیونکہ سارا کام خود وزیراعظم صاحب نے اپنے دستِ مبارک میں لے رکھا ہے اور وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ اور قانون بھی اللہ کے فضل سے خود ہی گھکاتے ہیں بلکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ باقی وزارتوں کی چابی بھی انہوں نے اپنے پاس ہی رکھی ہوئی ہے اور اس لیے وہ اسمبلی سے بھی غیر حاضر رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ دیگر مفید کاموں میں مصروف ہوتے ہیں اور میں عالم وزارت علیا کا بھی ہے کہ وزیراعلیٰ صاحب نے بھی تمام تر وزارتوں کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اس مقصد کے لیے صف بندی کرلی گئی ہے‘‘ اور اس کے لیے مارکیٹ سے کافی صفیں خرید لی گئی ہیں اور اب فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں کور کمیٹی کے ایک اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔
چراغ حسن حسرت
بے بدل صحافی، ادیب اور شاعر چراغ حسن حسرت پر یہ کتاب راشد اشرف نے مرتب کی ہے جو تخلیق ادب کراچی نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت 800روپے رکھی ہے۔ یہ ان مضامین، خاکوں اور تذکروں کا مجموعہ ہے جو ان کے نامور ہم عصروں نے ان کی زندگی اور بعد میں تحریر کیے جن میں سعادت حسن منٹو، سید ضمیر جعفری، اے حمید، شورش کاشمیری ، صوفی تبسم ، شاہد احمد دہلوی، محمود نظامی، کرشن چندر، عبدالمجید مالک ، ظہیر بابر، احمد بشیر، نصراللہ خاں، مظفر علی سید ، احمد ندیم قاسمی، عاشق بٹالوی، شیخ محمد اسماعیل پانی پتی، قمر تسکین، انتظار حسین ، اختر حسین رائے پوری، فیض احمد فیض، عبداللہ ملک ، مولاناصلاح الدین احمد ، پطرس بخاری، سبط حسن ، مجید لاہوری اور حمید نسیم شامل ہیں، جس سے اس کتاب کی وقعت اور قدر وقیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کلیات ضیا
یہ اپنے زمانے کے معروف نظم گو شاعر ضیا جالندھری کا کل کلام ہے جس میں ان کے جملہ مجموعے، سرِشام، نارسا ، خواب سراب، پس حرف او دم صبح شامل ہیں۔ اسے ٹیلی میگ اسلام آباد نے چھاپا ہے اور اس کی قیمت 540روپے رکھی گئی ہے۔ آپ کا شمار میرا جی کے بعد بلکہ ان کے ساتھ ہی جدید یعنی آزاد نظم کے اولین علم برداروں میں ہوتا ہے جن میں تصدق حسین خالد ، مختار صدیقی، قیوم نظر، عارف عبدالمتین، عزیز حامد مدنی اور دیگران شامل تھے۔ اگرچہ ان میں سے فیض احمد فیض اور منیر نیازی ہی صحیح معنوں میں باقی رہ گئے جبکہ باقی حضرات کا حوالہ تذکروں ہی میں دستیاب ہوا ہے۔ کتاب بہت اعلیٰ گیٹ اپ میں چھپی ہے ۔اس میں زیادہ تر نظمیں اور کم تعداد میں غزلیں بھی شامل ہیں جن کا سنِ تحریر 2003ء تک پھیلا ہوا ہے، جن میں جید طرز احساس کا کوئی سراغ نہیں ملتا اور روایت ہی میںگندھی نظر آتی ہیں۔ اصل میں ان حضرات کو ساٹھ کی دہائی میں چلنے والی لسانی تحریک نے ہی نکال باہر کردیا تھا جس نے شاعری کا رنگ ہی بدل کر رکھ دیا۔
ہم شہری
یہ ہفت روزہ لاہور سے عمران باجوہ ، شفقت اللہ اور سجاد انور کی ادارت میں شائع ہوتا ہے اور اس میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ایک عمدہ اور معیاری ہفت روزے میں ہونا چاہیے۔ پیشانی کی تحریر کے مطابق یہ ترقی پسند ، آزاداور جمہوری جریدہ ہے۔ ترقی پسندی تو اب خال خال ہی نظر آتی ہے کیونکہ سب کچھ یا تو رائٹ ہے یا سنٹر رائٹ ،زیادہ سے زیادہ وہ ہفت روزہ اجلاس باقی رہ گئے ہیں جو ہمارے دوست اور ترقی پسند شاعر عابد حسین عابد ناصر باغ میں منعقد کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ اس یبوست زدہ ماحول میں تازہ ہوا کی وہ کھڑکی ہے جو کئی برسوں سے کھلی ہوئی ہے ورنہ لیفٹ تو کہیں نسوار لینے کو بھی دستیاب نہیں۔ نہایت عمدہ گیٹ اپ میں اس باتصویر رسالے کی قیمت 30روپے رکھی گئی ہے۔ باقاعدگی سے شائع ہونے والا ہفت روزہ نکالنا تو ویسے بھی اپنی جان پر کھیلنے کے مترادف ہے اور اخبارات کے سنڈے ایڈیشنوں پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ پرچے میں ہر شعبۂ زندگی کو نمائندگی دی گئی ہے جبکہ اس کے لکھنے والوں میں انتظار حسین ، محمد سلیم الرحمن، سلیم راز لالہ اور محمد عاصم بٹ جیسے حضرات بطور خاص شامل ہیں۔ علاوہ ازیں حال ہی میں انتقال کرجانے والی پنجابی ادیبہ افضل توصیف پر ایک مضمون بھی موجود ہے۔
آج کا مقطع
ظفرؔ‘ اسرار ہستی کھول بیٹھا ہوں سراسر
مگر اک آخری پردہ ہٹانا رہ گیا ہے