معروف اور سینئر شاعر جناب جمیل یوسف لکھتے ہیں:
جناب ظفر اقبال کی دونوں غزلیں ان کی اپنی طرزِ خاص میں نہایت عمدہ ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس رنگ اور معنوی آہنگ کی غزلیں نہ موجودہ دور میں کوئی کہہ سکتا ہے اور نہ اردو شاعری کی پوری تاریخ میں کسی نے کہی ہیں۔ ان کو اگر اپنی غزل گوئی پر غرور ہے تو بجا۔ ان کا یہ شعر ؎
ظفرؔ، اس کارِ دنیا میں ہماری انتہا یہ ہے
کہ ہم پکڑے گئے ہیں ابتدا ہونے سے پہلے ہی
غالبؔ کے شعر کی یاد دلاتا ہے:
پنہاں تھا دامِ سخت قریب آشیان کے
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
غالبؔ نے جو بات استعارے کی مدد سے کہی ہے‘ ظفر اقبال نے اس کے بغیر ہی کہہ دی ہے اور خوب کہی ہے۔ ظفر اقبال کے مقابلے میں غالبؔ کا اظہار بہرحال روایتی ہے۔ میں ان کے ان اشعار کی بطور خاص داد دیتا ہوں:
محبت ہو چکی تھی مبتلا ہونے سے پہلے ہی
سو‘ آخر میں الگ تھے ہم جدا ہونے سے پہلے ہی
وہ خوابِ زرگری جیسا بھی تھا‘ دیکھا بہت‘ لیکن
اُڑی ہے راکھ اپنی کیمیا ہونے سے پہلے ہی
نکل تو آئی اس کی شکل کافی دیر میں‘ لیکن
مجھے اچھا لگا وہ خوشنما ہونے سے پہلے ہی
سمٹنے کی کوئی تدبیر لائیں اب کہاں سے ہم
کہ یہ تو سوچنا تھا جا بجا ہونے سے پہلے ہی
کسی کا دخل کیا اس میں‘ مری قسمت ہی ایسی تھی
کہ میں بدنام ہو جائوں بُرا ہونے سے پہلے ہی
(ماہنامہ ''الحمرا‘‘ لاہور‘ جنوری 2015ء‘ سالنامہ)
بہت بہت شکریہ‘ اگرچہ میں تو اسے غلط بخشی ہی کہوں گا اور ساتھ ہی فکر مند ہوں کہ کیا اس بیان پر ڈاکٹر انور سدید نے ابھی آپ کی گردن نہیں ناپی کہ آپ نے یہ کیا لکھ دیا ہے بلکہ کئی اور بھی آپ کو سمجھانے کے لیے آ جائیں گے۔ بہرحال‘ اس تعریف کے بعد بھی میں ویسا ہی ہوں جیسا کہ تھا‘ کیونکہ میں اپنا کتھارسس خود بھی کرتا رہتا ہوں... ابھی یہاں تک ہی پہنچا تھا کہ محبی اقتدار جاوید کا فون آ گیا کہ صبح سویرے ہی انہیں سری نگر سے فون پر میرے اور ان کے ایک نیازمند خالد کرار شیخ نے بتایا ہے کہ بابا جی نے اپنے کالم میں آپ کی نظمیں لگا دی ہیں۔ اُدھر گوجرہ سے سید اذلان شاہ فون پر ان نظموں کی بے حد تعریف کر رہے ہیں کہ یہ نظمیں انہوں نے کئی بار پڑھی ہیں اور انہیں ہر بار نیا ہی مزہ آیا ہے۔ میں نے کہا کہ اگر آپ کل والے کالم میں ابرار احمد کی نظمیں دیکھتے تو آپ کو اور بھی مزہ آتا کہ میں نے خود بھی وہ مزے لے لے کر ہی چھاپی ہیں۔ کہا کہ وہ بھی ضرور دیکھوں گا۔
بہرحال‘ بابا جی کے لقب پر مزید خوشی ہوئی اور اطمینان بھی۔ اطمینان اس لیے کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے‘ اور لمبی عمر کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے ابھی کچھ اور کام لینا ہے اور آپ یہ بھی سوچتے ہیں کہ کئی جو آپ سے چھوٹے تھے‘ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ آج ہی کراچی میں جناب جمیل الدین عالی کی 90 ویں سالگرہ منائی گئی۔ ان کے لیے سنچری پوری کرنے کی دعا۔ دو تین سال پہلے اپنے دیرینہ دوست عطاالحق قاسمی کی سالگرہ پر یہ قطعہ پیش کیا گیا تھا ؎
مزاح و طنز نگاری جو تجھ پہ ناز کرے
شعورِ شاعری بھی خم سرِ نیاز کرے
یہی ہے آج ترے سارے دوستوں کی دعا
کہ اور بھی تری رسّی خدا دراز کرے
میں ابھی کُبڑا تو نہیں ہوا ہوں؛ تاہم میرا یہ شعر قمر جمیل مرحوم کو بہت پسند تھا ؎
مجھے کُبڑا نہ سمجھو‘ زندگی پر
میں ہنستے ہنستے دوہرا ہو گیا ہوں
اپنے بڑھاپے کا ذکر کئی اور بھی جگہوں پر کیا ہے‘ مثلا ؎
میں بڑھاپا تو گزار آیا ہوں
ہے ابھی عہدِ جوانی آگے
بوڑھا ہونے سے پہلے ہی
شکل بنائی بوڑھی میں نے
جو بوڑھا ہوں تو کیوں دل میں محبت زور کرتی ہے
میں جتنا چُپ کراتا ہوں‘ یہ اتنا شور کرتی ہے
اب تو میں آپ بھی تیار ہوں جانے کو، ظفرؔ
آخری عمر کا یہ عشق جدھر لے جائے
کوئی عیش‘ کوئی نشاط اب مرے نام کا نہیں رہ گیا
اُسے مجھ سے کام ہے اور میں کسی کام کا نہیں رہ گیا
مطلب یہ کہ بڑھاپا اگر آئے تو اس پر مایوس ہونے کی بجائے خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ کو اپنے پیاروں میں رہنے کا مزید موقعہ مل رہا ہے‘ کم از کم میرا نقطۂ نظر یہی ہے۔ اور یہ مقولہ کہ مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا‘ کچھ ایسا درست نہیں ہے بلکہ یہ عورت ہے جو کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمیشہ عورت اپنی عمر چھپاتی ہے‘ مرد کبھی ایسا نہیں کرتا۔ نیز‘ مرد بوڑھا ہو کر ناکارہ ہو جاتا ہے لیکن عورت مرتے دم تک ناکارہ نہیں ہوتی۔ نہ ہی وہ ا پنے آپ کو بوڑھا تسلیم کرتی ہے‘ اس لیے صحیح مقولہ یہ ہوگا کہ عورت کبھی بوڑھی نہیں ہوتی (محترم خواتین سے معذرت کے ساتھ)
آج کا مقطع
چل بھی دیئے دکھلا کے تماشا تو‘ ظفرؔ، ہم
بیٹھے رہے تادیر تماشائی ہمارے