اِسے گزشتہ کالم کا ضمیمہ ہی سمجھا جائے۔ اصل تشویش انگیز بات یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی مردم شناسی اور حسنِ انتخاب ہمیشہ سوالیہ نشانات کی زد میں رہے ہیں۔ وفاقی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے جو کم و بیش انہی تھکے ہوئے بابوں پر مشتمل ہے جو روزِ اول سے زیر استعمال ہیں اور حکومت کی عدم یا کم کارکردگی بھی انہی حضرات کا شاخسانہ ٹھہرائی جا رہی ہے۔ پھر آپ سات سمندر پار سے ایک آدمی کو اٹھا لائے اور پنجاب کے سر پر بٹھا دیا۔ موصوف آپ کے کٹڑ مخالف عمران خان کی گود میں جا بیٹھے۔ یہی کچھ آپ کے ساتھ مخدوم جاوید ہاشمی نے کیا۔ جبکہ صدر ممنون حسین کا انتخاب بھی آج تک بہت سوں کی سمجھ میں نہیں آیا۔
اگر میاں شہبازشریف یہ سمجھتے ہوں کہ کل تک جو شخص ان کا ماتحت تھا‘ اب اسے اپنا افسر کیسے مان لیں تو سیاست میں اوپر نیچے کا معاملہ کوئی زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ رانا اقبال احمد خاں اگر رکن صوبائی اسمبلی ہی رہتے تو آپ کے ماتحت ہوتے لیکن آپ انہیں سپیکر بنا کر خود ان کے ماتحت ہو گئے؛ چنانچہ اقتدار کے مالک آپ ہیں اور آپ کی حکومت میں جس کسی نے بھی اوپر آنا ہے‘ آپ ہی کے طفیل آنا ہے اور اگر کابینائوں کی حیثیت برائے نام ہو کر رہ گئی ہے اور مثلاً جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ پنجاب حکومت کو وزیراعلیٰ کی بجائے ایک صاحب چلاتے رہے ہیں تو اب یہ کام ایک اور صاحب کر رہے ہیں۔ اس لیے کسی کی انفرادی سطح پر کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ اصل اختیار آپ کے پاس ہے‘ آگے کسی کو دیں یا نہ دیں۔
حق تو یہ ہے کہ صحافی حضرات ہی اصل میں سیاسی دانشور ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں اور انہیں اپنے قریب رکھنے کا فائدہ تو ہو سکتا ہے‘ نقصان نہیں۔ جناب نجم سیٹھی کو نگران وزیراعلیٰ بنایا گیا تو یہ اس طبقے کی قدر افزائی تھی جس پر بالعموم اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا گیا۔ اسی طرح جناب عرفان صدیقی کی بطور مشیر تعیناتی کو بھی ان حلقوں میں سراہا گیا۔ آپ کی کچن کیبنٹ میں جو طرح طرح کی موجودگی بتائی جاتی ہے تو اصل میں وہاں صحافیوں کی اکثریت ہونی چاہیے جو آپ کو صحیح مشورے دیں اور آپ کی گاڑی زیادہ بہتر طور پر چلتی رہے۔ پھر‘ عطاء الحق قاسمی کو تو اس کے علاوہ ایک وسیع انتظامی تجربہ بھی حاصل ہے اور آرٹ کونسل کو جس خوبی سے وہ چلا رہے ہیں اس کے بارے میں دورائیں ہو ہی نہیں سکتیں۔ آپ ایک چیز کو اس کی صحیح جگہ کی بجائے کہیں اور رکھ دیں تو یہ ظلم ہے اور ظلم کے لغوی معنی بھی یہی ہیں۔
صاحبِ موصوف ایک صاحبِ طرز ادیب ہیں جن کا لوہا ایک دنیا مانتی ہے‘ انہیں ان کا صحیح مقام دیں گے تو خود آپ کی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا ورنہ شہرت اور عزت ان کے لیے پہلے ہی کافی ہے۔ سوال صرف صحیح آدمی کو صحیح کام میں لانے کا ہے۔ پھر جب آپ کو حکومت میں اپنے اقرباء ہی کو عہدوں پر بٹھانے کا طعنہ دیا جاتا ہے تو عطاء الحق قاسمی تو اس لحاظ سے آپ کے افرادِ خانہ میں شمار ہوتے ہیں‘ آخر انہیں نظرانداز کیوں کیا جائے۔ گوناگوں خدمات کا ذکر ہم پہلے ہی کر چکے ہیں اور ان سے زیادہ کسی اور پر اعتماد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ دیرینہ جانثاروں کو آپ سے شکایات بھی ہیں‘ مثلاً غوث علی شاہ اور ذوالفقار کھوسہ کی صورت حال سب کو معلوم ہے۔ اور‘ اگر یہاں آپ نے کسی سیاسی آدمی ہی کو لگانا ہے تو جنوبی پنجاب سے کسی کا انتخاب کیجیے تاکہ اس نہایت اہم علاقے کا احساسِ محرومی دور ہو اور عطاء الحق قاسمی کو سینیٹ میں بھیجیں تاکہ کل کو انہیں وزارتِ اطلاعات و نشریات جیسا کوئی قلمدان سونپا جا سکے ورنہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ ایسے قیمتی آدمی کو آپ آرٹ کونسل ہی میں الجھائے اور کھپائے رکھیں۔ ایسے دماغ قومی اثاثہ ہوا کرتے ہیں۔ انہیں بہتر سے بہتر کام میں لایا جائے۔ اگر عطاء الحق قاسمی وزیر ہوتے ہیں تو یوں سمجھیے کہ ساری صحافی برادری ہی اپنے آپ کو وزیر سمجھنے میں حق بجانب ہوگی ۔میاں صاحبان تو خود دانا و بینا ہیں،یعنی ع
جگنوئوں کو راستہ تو یاد ہونا چاہیے
اور‘ اب خانہ پُری کے لیے یہ غزل:
پھرا کرو اب روٹھے
تم روٹھے‘ ہم چھوٹے
کچے رہے سلامت
پکے دھاگے ٹوٹے
چوک ہو یا چوبارہ
کہیں تو بھانڈا پھوٹے
جاتے ہوئے کراچی
پکڑے گئے کہوٹے
گھاس ہوئی پامال
کمہلائے گل بوٹے
ایک ہی بیر بہوٹی
باقی بیر بہوٹے
لے گئے عرشِ معلیٰ
چار چرس کے سُوٹے
کر لیں خوب تسلی
لگوا لیں انگوٹھے
نکلے جیب سے اپنی
وعدے سچے جھوٹے
سب کے ساتھ ظفر بھی
اپنا پِیپا کُوٹے
آج کا مطلع
کیا پوچھ رہے ہو نام اُس کا
بس دیکھتے جائو کام اُس کا