پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر معین خان کو آسٹریلیا کے ایک کسینو میں جانے پر واپس بلا لیا گیا۔ سوال ہے کہ معین خان کو وہاں بھیجا ہی کیوں گیا تھا کیونکہ چیف سلیکٹر کو ٹیم کے ساتھ بھیجنے کی کوئی روایت ہی نہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق انہیں کسی تگڑی سفارش پر تفریحی دورے پر بھیجا گیا۔ اگر یہ درست ہے تو چیئرمین بورڈ اس سفارشی کا نام بھی بتائیں اور ساتھ یہ بھی تسلیم کریں کہ بورڈ میں سفارش کا چلن عام ہے اور یہ جو ہر سلیکشن کے موقعہ پر ٹیم میں شامل کرنے یا نہ کرنے پر سفارشوں کا واویلا مچایا جاتا ہے‘ وہ بھی بے بنیاد نہیں۔
چیئرمین شہریار نے خود بتایا ہے کہ انہوں نے بازپرس کی تو معین خان نے بتایا کہ وہ اپنی بیوی اور اپنے ایک دوست اور اس کی بیوی کے ساتھ کھانا کھانے گئے تھے اور انہوں نے جوا نہیں کھیلا جس پر انہوں نے اس کے لیے ایک انکوائری کمیٹی بھی مقرر کردی لیکن اس کی رپورٹ سے پہلے ہی معین خان کو واپس بلا لیا گیا؛ یعنی جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی سزا سنا دی گئی۔ اس غیر دانشمندانہ فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی میڈیا کو پاکستانی ٹیم کے خلاف کیچڑ اچھالنے کا سنہری موقعہ ہاتھ آ گیا۔
سابق بیوروکریٹ ڈاکٹر ظفر الطاف (جن کی دیانت‘ سلامت روی اور راست فکری کی لوگ قسمیں کھاتے اور مثال دیتے ہیں اور جنہیں پچھلے برس کاروباری رقابت کی بنا پر ایک وفاقی وزیر نے
اس قدر تنگ کیا کہ ان کی گرفتاری تک کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا‘ اور جو ٹیم کے چیف سلیکٹر بھی رہے ہیں اور 92ء میں ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے منیجر بھی تھے) ایک ٹی وی ٹاک میں بتاتے ہیں کہ معین خان کو وہ عرصے سے ذاتی طور جانتے ہیں وہ باکردار‘ صاف ستھرا اور شریف آدمی ہے اور اسے قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے؛ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ آسٹریلیا میں پانچ بجے کے بعد تمام ریستوران قانونی طور پر بند کر دیئے جاتے ہیں۔ جو لوگ کسی بنا پر کھانا کھانے سے رہ جائیں انہیں ان کسینوز ہی کا رُخ کرنا پڑتا ہے جہاں کھانا دستیاب ہوتا ہے۔ نامور کرکٹر محمد یوسف نے بھی ایک ٹی وی چینل پر کہا ہے کہ معین خان کے کسینو جانے کا ٹیم کے مورال پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کھلاڑیوں پر خواہ مخواہ غیر مناسب پابندیاں عائد کی جاتی ہیں؛ حالانکہ انہیں ذہنی آسودگی کے ساتھ کھیلنے کا موقعہ دینا چاہیے مگر اس کے برعکس نہ صرف ان (کھلاڑیوں) کے ساتھ سکول کے بچوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے بلکہ طرح طرح کے اعتراضات بھی‘ کہ نماز کیوں پڑھتے ہو اور داڑھی کیوں رکھی ہے وغیرہ وغیرہ!
واقعی سوچنے کی بات ہے کہ جب معین خان ٹیم میں شامل ہی نہیں تھا اور نہ ہی اسے ٹیم کے ساتھ بھیجا گیا تھا بلکہ اسے ایک علیحدہ تفریحی دورے پر محض موج میلہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا تو اس کے کسینو چلے جانے سے ٹیم کے مورال پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؛ البتہ ان جرمانوں کا اثر ضرور پڑا ہوگا جو گزشتہ میچ سے پہلے شاہد آفریدی سمیت کئی کھلاڑیوں پر کیے گئے حالانکہ یہ دونوں فیصلے ٹیم کی واپسی تک مؤخر بھی کیے جا سکتے تھے اور پاکستانی کرکٹ کی اس قدر بدنامی سے بچا بھی جا سکتا تھا۔ جہاں تک معین خان کا تعلق ہے تو ٹیم کی سلیکشن کے بعد سیریز کے خاتمے تک چیف سلیکٹر کا برائے نام کردار بھی نہیں ہوتا۔ غیر متعلقہ آدمی کے کسینو جانے کی بات کو بتنگڑ بنا لیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ بظاہر بورڈ کے کارہائے نمایاں و خفیہ پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا گیا ہے جن کے سبب پاکستانی کرکٹ زوال کو پہنچی۔ دوسرے یہ کہ اگر معین خا ن کو خلافِ قاعدہ اور خلافِ روایت محض لطف اندوز ہونے کے لیے آسٹریلیا بھیجا گیا تھا تو اس کے کسینو جانے سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تھی اور کون سا طوفان آ گیا تھا۔
بے شک معین خان کو خلافِ معمول ٹیم سے الگ بھیجا گیا تھا‘ جس کی ذمہ داری صرف اور صرف چیئرمین بورڈ پر عائد ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے دورے کے اخراجات کے لیے لاکھوں روپے کا بجٹ منظور کیا گیا تھا؛ لہٰذا سب سے پہلے تو چیئرمین کو اسی بات پر خود مستعفی ہو جانا چاہیے‘ معین خان کی بات تو بعد کی ہے۔ اگر اس کیس میں معین خان کو کلین چٹ بھی مل جاتی ہے تو اس نقصان کا ازالہ کیونکر ہوگا جو انہیں واپس بلانے سے ہو چکا۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ بہت جلد بازی میں اور عواقب و اثرات کا ادراک نہ کرتے ہوئے کیا گیا اور خواہ مخواہ رائی کا پہاڑ بنانے کے مترادف ہے۔ پھر جوا کھیلنے کا اس کے خلاف کوئی بھی ثبوت نہیں ہے۔ اگر اس نے جوا کھیلا بھی ہو تو چیف سلیکٹر نہیں بلکہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے ایسا کیا ہوگا۔ اُسے تو بھیجا ہی موج مستی کے لیے گیا تھا اس لیے اس پر کرکٹ کے ڈسپلن اور قواعد کا اطلاق نہیں ہوتا؛ چنانچہ اس سے ٹیم کے مورال پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا؛ تاہم جس توہین آمیز طریقے سے ان کے سلیکٹر کو واپس بلایا گیا ہے‘ ٹیم کا مورال اس سے ضرور ڈائون ہوا ہوگا۔ اپنے ٹریک ریکارڈ کے باعث معین خان جیسے لوگ ہمارے ہیروز ہیں۔ ان کی توہین پوری قوم کی توہین کے مترادف ہے۔
بورڈ کا اصل مسئلہ اس کے وہ لاتعداد‘ فضول اور فالتو افسران اور اہلکاران ہیں جو اس کے وجود کو جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے خون چوس رہے ہیں۔ ادارے کو سفید ہاتھی بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ جو پیسہ کرکٹ کی ترویج و ترقی اور کھلاڑیوں پر خرچ ہونا چاہیے وہ ان کی جیبوں میں جا رہا ہے۔ مچھلی ہمیشہ سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے جس طرح کرپشن چوٹی سے ٹرکل ڈائون کرتی ہے۔ محکمے کا سربراہ خود ٹھیک ہو تو پورے محکمے کے ٹھیک ہونے کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے چیئرمین نے معین خان کو واپس بلانے کا فیصلہ اُس سفارشی کو آئینہ دکھانے کی خاطر کیا ہو جس کے مجبور کرنے پر موصوف نے معین خان کو باہر بھجوایا تھا۔ بہرحال کرکٹ کے روز بروز بگڑتے ہوئے حالات میں معین خان کی واپسی ایک الگ سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے جسے بورڈ ہی کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے نامناسب اور مشکوک قرار دیا ہے۔ اس بات کو اُن لوگوں نے بھی پسند نہیں کیا جو معین خان کو جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ معین خان کے ساتھ سخت زیادتی روا رکھی گئی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اس طرح کی بُوالعجبیاں ہوتی ہی رہتی ہیں‘ اس لیے اس پر حیران یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔
آج کا مطلع
ایسی کوئی درپیش ہوا آئی ہمارے
جو ساتھ ہی پتے بھی اڑا لائی ہمارے