"ZIC" (space) message & send to 7575

دہشت میں محبت‘ محمد حمید شاہد کے افسانے

اگر آپ نے مارکیز کے ناول ''طاعون کے دنوں میں محبت‘‘ کا مطالعہ کر رکھا ہے تو اس مجموعے کو بھی ضرور پڑھیے تاکہ دونوں میں جو فرق ہے اُس کا اندازہ ہو سکے۔ سو‘ پہلے تو یہ اعتراف کہ میں محمد حمید شاہد کو مانتا ہوں اور لکھ کر اس کا اظہار بھی کر چکا ہوں۔ اب میری دقت یہ ہے کہ افسانہ پڑھنے کا نہ تو وقت میسر آتا ہے اور نہ ہی افسانہ پڑھنے سے وہ لطف ملتا ہے جو کسی زمانے میں ارزانی ہوا کرتا تھا یعنی افسانہ جب صرف افسانہ یعنی کہانی ہوا کرتا تھا‘ لیکن اب اس میں بہت سی کام کی باتیں بھی شامل کر دی گئی ہیں اور آپ ان سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
میری کمزوری یا نالائقی یہ ہے کہ اگر کوئی تحریر پہلی سطر ہی سے مجھے اپنی جانب متوجہ نہیں کرتی‘ اور اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کر دیتی تو میں اس سطر سے آگے جانے سے معذور رہتا ہوں۔ یہ میری تساہل پسندی بھی ہو سکتی ہے جسے آپ عمر کا تقاضا بھی کہہ سکتے ہیں۔ پھر‘ میں شاعری کو منہ ضرور مار لیتا ہوں کہ یہ کام مجھے کسی حد تک آتا بھی ہے یعنی کم از کم میں خود ضرور سمجھتا ہوں کہ مجھے آتا ہے۔ اگرچہ کافی عرصے سے میری سمجھ کا معاملہ بھی کافی دگرگوں ہو چکا ہے۔ اور چونکہ میں نقاد بھی نہیں ہوں‘ اس لیے مجھ سے یہ توقع بھی نہیں کی جانی چاہیے کہ میں ہر صنفِ ادب پر اپنی رائے ظاہر کر سکوں۔ غزل کا شاید ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہ آپ کو آسانی پسند بنا دیتی ہے کہ ایک شعر کا بیان صرف دو مصرعوں ہی میں ہو جاتا ہے‘ حتیٰ کہ یہ نظم پڑھنے میں بھی کسی حد تک رکاوٹ بنتی ہے‘ افسانہ اور ناول تو پھر بھی بہت دور کی بات ہے؛ چنانچہ اسی کلیے پر سارا دارومدار رہ جاتا ہے کہ افسانہ یا کوئی بھی خصوصاً نثری تحریر آپ کو شروع ہی سے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے یا نہیں۔ میں یہاں صرف منٹو کی مثال دوں گا جس کا افسانہ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آپ غزل پڑھ رہے ہیں۔ رمز و کنایہ کا بھرپور استعمال ان افسانوں میں بھی ہوتا تھا لیکن افسانہ پڑھنے میں اتنی محنت نہیں کرنا پڑتی تھی جتنی عام طور سے اب بروئے کار لانا پڑتی ہے۔
چنانچہ افسانے کا مقصد اگر کہانی بیان کرنا ہے تو اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عام فہم ہو اور قاری کو باقاعدہ اپنے ساتھ لے کر چلے اور یہی بات کہانی میں دلچسپی کا باعث بھی ہوا کرتی ہے؛ چنانچہ اس صنعت پر پہلا وار تو تجریدی افسانے نے کیا لیکن یہ بلا آہستہ آہستہ ٹلتی چلی گئی اور افسانہ ایک بار پھر اپنی اصل شکل میں بحال ہوا۔ علاوہ ازیں اگر کہانی میں سیاسی و سماجی حالات کی تصویر کشی بھی مطلوب ہو تو بھی‘ یہ بات زیادہ عام فہم طریقے سے بھی کہی جا سکتی ہے‘ بجائے اس کے کہ کہانی کار سارا زورِ قلم اپنا علم و فضل ظاہر کرنے پر ہی صرف کر دے اور قاری کو الگ ایک امتحان میں ڈال دے۔
میں نے نظم اور غزل پر بات کرتے ہوئے ایک بار لکھا تھا کہ غزل سے لطف اندوز ہونے کے لیے صرف دل درکار ہوتا ہے جبکہ نظم سے لطف اندوز ہونے کے لیے دل اور دماغ دونوں کی ضرورت پڑتی ہے‘ اگرچہ ایسی غزلیں بھی کہی گئی ہیں اور اب بھی کہی جا رہی ہیں جن میں دل اور دماغ دونوں درکار ہوتے ہیں۔ دراصل یہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے‘ اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس ایجاد نے دماغوں کو اس قدر تساہل پسند نہیں رہنے دیا اور دماغ کو اپنی صلاحیتیں ظاہر کرنے میں زیادہ مشکل پسندی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایسے افسانے اور نظم کا مستقبل بلکہ حال بھی زیادہ روشن ہے۔
جو کچھ میں نے اوپر عرض کیا ہے‘ یقینا یہ کسی بھی قسم کی تنقید نگاری کی ذیل میں نہیں آتا اور نہ ہی آپ اسے تنقید سمجھ کر پڑھ رہے ہیں کیونکہ فی الاصل تو یہ ایک طرح سے میری داماندگی اور عجز ہی کا اظہار ہے ،ورنہ افسانے پر کوئی معقول بات بھی ہو سکتی تھی جس کا میں اہل ہرگز نہیں ہوں۔ ویسے بھی اپنی تحریروں میں میں گپ بازی ہی سے زیادہ کام لیتا ہوں کیونکہ گپ ہانکنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں گپ سننے کا بھی ایک ذائقہ موجود ہے‘ حتیٰ کہ آپ نے دیکھا کہ افسانوں کی اتنی سنجیدہ اس کتاب پر بھی گپ بازی کی گنجائش موجود تھی جس کا کمزور سا اظہار آپ کے سامنے ہے۔
بھارت سے تعلق رکھنے والے اس کتاب کے مرتب محمد غالب نشتر نے کتاب ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ اس کا ایک پُرمغز دیباچہ بھی تحریر کیا ہے اور پسِ سرورق بھی۔ وہ لکھتے ہیں:
''اردو فکشن کی تاریخ میں محمد حمید شاہد کا نام ہمیشہ جلی حروف میں رقم کیا جائے گا۔ ان کا شمار پاک و ہند کے ان نمائندہ فن کاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے فکشن لکھنے کے ساتھ‘ فکشن کی تنقید پر بھی خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ ان کی تصانیف سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ تاہنوز ان کے چار افسانوی مجموعے‘ ایک ناول اور پانچ فکشن تنقید کی کتابیں اشاعت سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔ افسانے کی تحقیق و تنقید کے دورانیے میں محمد حمید شاہد کا نام میرے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ اس کا واحد سبب ان کے اسلوب کی انفرادیت اور موضوعات کا تنوع ہے۔ انہوں نے ملک کی موجودہ صورتِ حال اور سیاسی اُتھل پتھل کو نہایت خوب صورتی سے اپنے فن پاروں میں برتا ہے۔ ادھر چند برسوں میں انہوں نے چند بہترین تخلیقات پیش کی ہیں جنہیں یک جا کر کے کتابی شکل میں پیش کرنے میں نہایت مسرت کا احساس ہو رہا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس مجموعے کی قرأت کے بعد سیاسی و سماجی حالات کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے‘‘۔
کتاب بک کارنر جہلم نے نہایت عمدہ گیٹ اپ میں شائع کی ہے ا ور دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ ساتھ عمدہ اور دبیز کاغذ استعمال کیا گیا ہے اور جس کی قیمت 380 روپے رکھی گئی ہے۔ زائد از ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل اس خوب صورت مجموعے کا انتساب اس طرح سے ہے:
اُن بچوں کے نام
جو پشاور میں بدترین دہشت گردی کا لقمہ بن گئے
آج کامطلع
یہ شہر وہ ہے جس میں کوئی گھر بھی خوش نہیں
دادِ ستم نہ دے کہ ستمگر بھی خوش نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں